امریکہ کے دارلحکومت واشنگٹن ڈی سی میں ایک آدمی کے اثرورسوخ نے مشرقِ وسطیٰ میں امریکہ کی خارجہ پالیسی کو اُلٹ پُلٹ کرکے رکھ دیا۔ سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، بحرین اور مصر کے قطر سے مُکمل سفارتی اور معاشی قطع تعلق میں اس شخص کا بہت بڑا ہاتھ ہے۔ اس آدمی کا نام ہے “یوسف آل اوطیبہ”، جس کو سفارتی اور سیاسی حلقوں میں “واشنگٹن کا سب سے بااثر اور دلکش آدمی” کی حیثیت سے جانا جاتا ہے۔ کہانی کچھ ایسے شروع ہوتی ہے۔
اوپیک پٹرول برآمد کرنے والے چودہ ممالک کی بین الاقوامی تنظیم ہے اور پوری دنیا کے تیل کا چوالیس فیصد یہ ممالک پیدا کرتے ہیں۔ “مانا آل اوطیبہ” متحدہ عرب امارات کے شیخ زید بن سلطان النیہان کا ذاتی مشیر اور وزیرِ پٹرولیم تھا اور اسکے ساتھ ساتھ اوپیک کا چھ مرتبہ منتخب ہونے والا واحد صدر تھا۔ انتہائی دبنگ شخصیت کا حامل “مانا آل اوطیبہ” ناصرف اوپیک بلکہ پورے مشرقِ وسطیٰ میں متحدہ عرب امارات کے مفادات کے تحفظ کے حوالے سے جانا جاتا تھا۔ اوپیک کے صدر اور دیگر اہم ترین عہدوں پر فائز ہونے کے باعث اُس کی جہاں دیدہ نظر نے متحدہ امارات کے امریکہ سے بہترین تعلقات کی ضرورت کو بھانپا اور اسکے لئے منصوبہ بندی شروع کردی جس میں بہت سے دیگر اقدامات کے ساتھ سب سے اہم قدم اپنے بیٹے “یوسف آل اوطیبہ” کی بچپن سے ہی سفارتی تربیت تھی۔
“یوسف آل اوطیبہ” نے انٹرنیشل ریلیشنز میں ڈگری جارج واشنگٹن یونیورسٹی سے حاصل کی اور جنرل شیخ محمد بن زید بن سلطان النیہان کے سینئر مشیر کے ساتھ ساتھ ابوظہبی کے انٹرنیشنل افئیرز کا ڈائریکٹر بن گیا۔ متحدہ عرب امارات کے سیکیورٹی اور معاشی معاملات میں امریکہ کے ساتھ بہترین تعلقات قائم کرنے اور بڑھوتری لانے میں یوسف کا کردار کلیدی تھا۔ اس کارکردگی کی بنا پر محض 34 برس کی عمر میں “یوسف آل اوطیبہ” کو 2008 میں امریکہ میں متحدہ عرب امارات کا سفیر بنا دیا گیا۔ اپنی بے پناہ ذہانت اور تال میل کی مہارت سے وہ بہت جلد واشنگٹن ڈی سی میں “اہم لوگوں” کا منظورِ نظر بن گیا۔ ڈیفنس سیکرٹری اور سابقہ سی آئ اے چیف، رابرٹ گیٹس اور صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا داماد جیرڈ کُشنر، یوسف کے قریبی دوست سمجھے جاتے ہیں۔ حال ہی میں یوسف کی “ہیک” کی گئ ای میلز سے اسکے قطر کے خلاف کیے گئے اقدامات میں امریکی تعاون حاصل کرنے کی کوششوں کا انکشاف ہوا ہے۔ یاد رہے قطر، امریکہ کے لئے کوئی پاکستان نہیں ہے کہ ایک جھٹکے میں مُنہ پھیر لے یا آنکھیں ماتھے پر رکھ لے؛ امریکہ کی سنٹرل کمانڈ کا فارورڈ ہیڈکواٹر قطر میں ہے جبکہ العدید آئر بیس اور الصیلیاہ آرمی بیس بھی قطر میں ہے۔ اتنے مضبوط تعلقات کے باوجود یوسف کی قطر کے خلاف اتنے بڑے اقدام کے لئے واشنگٹن ڈی سی میں لابنگ کرنا، اُن پاکستانی سفارتکاروں کے لئے ایک سبق ہے جو ڈونلڈ ٹرمپ کے مُنہ سے اپنے وزیراعظم کا نام تک نہ نکلوا سکے، تعریف کے چند بول تو دور کی بات ہے۔ یاد رہے کہ “یوسف آل اوطیبہ” کا قطر اور بالواسطہ ایران کے خلاف یہ اقدام قابلِ مُذمت ہیں لیکن یہاں بات اُسکی قابلیت اور سفارتی حدف کو حاصل کرنے کی صلاحیت کی ہورہی ہے، اُسکے عمل کی اچھائی یا بُرائی کی نہیں!
دنیا کے بیشتر مُمالک میں سفارت کاری کی تربیت کے لئے باقاعدہ موثر اور سنجیدہ پالیسی ہوتی ہے۔ پاکستان میں یہ کام “سی ایس ایس” کے ذریعے ہوتا ہے۔ گویا انٹرنیشنل ریلیشنز میں ماسٹر کی ڈگری رکھنے والا نوجوان سی ایس ایس کے امتحان میں “پاکستان کے آبپاشی کے نظام” پر نوٹ نہ لکھ سکے تو وہ “پوسٹل گروپ” میں آجائے گا جبکہ کوئی ایم اے اُردو رٹا مار کر وہی مضمون “لفظو لفظ” لکھ کر “فارن سروس” میں چلا جائے گا۔ اب چند ماہ کی اکیڈمی ٹریننگ میں اُس میں سے کون سا نیا سفارتکار نکالیں گے؟؟؟؟ گورنمنٹ کو آٹھویں جماعت کے بعد پورے مُلک سے شاندار طالبعلم چُن کر انکی سفارتکاری کی تربیت کرنی چاہئے جس میں مختلف ممالک کی تہذیب و تمدن اور لب و لہجہ (accent) بھی سکھایا جائے تاکہ گھلنے ملنے میں آسانی ہو۔ بیرونی ممالک میں پیدا ہونے والے سیکنڈ یا تھرڈ جنریشن پاکستانی بچوں کو بھی شاندار پیکیج دے کر چھوٹی عُمر سے ہی ریکروٹ کیا جاسکتا ہے۔ فارن سروس کے افسران کے بچوں نے بھی گھاٹ گھاٹ کا پانی پیا ہوتا ہے، ان کو بھی سفاتکاری کے لئے چھوٹی عمر سے ہی چُنا اور مزید ٹرینڈ کیا جاسکتا ہے۔ پاکستان پہلے ہی سفارتکاری کے معاملے میں بہت پیچھے ہے اور مزید دیر یا کوتاہی کا مُتحمل نہیں ہوسکتا ہے۔ دُعا ہے کہ کبھی وہ دن بھی آئے جب کوئی پاکستانی “واشنگٹن کا سب سے بااثر اور دلکش آدمی” کہلائے۔
کالم نگار: راؤ کامران علی، ایم ڈی
ہر بدھ وار کو کالم لکھا جاتا ہے۔ اگر پسند آئے تو شئیر کریں۔ مزید کالم پڑھنے کے لئے اس پیج Tez Hay Nok e Qalam کو like کریں شُکریہ