امریکہ میں پاکستانیوں کی سیاست

ٹرمپ کے امریکہ میں تمام مُسلمان عتاب میں ہیں۔ حالیہ دنوں میں مسلمانوں بالخصوص پاکستانیوں کو ان دیکھے پھندوں میں پھنسیایا جا رہا ہے۔ ہیٹ کرائمز (نسلی تعصب پر مبنی جرائم) میں بے پناہ اضافہ ہو گیا ہے، امریکہ کے ویزے یا تو دئے نہیں جا رہے یا پھر دئے جانے کے عمل کو غیر ضروری طوالت دی جا رہی ہے جس کے باعث بہت سے پروفیشنلز اپنی نوکری سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ ہر شعبے کی طرح ہماری قوم امریکہ کے پالیسی میکرز اور طاقتور اداروں سے “ایمرجنسی” بنیادوں پر تعلقات بنانے کی تگ و دو کر رہی ہے لیکن پوری دنیا کے سفارتکاروں سے لیکر کاروباری وفود سے دن رات نمٹنے والے گھاگ امریکی سیاستدان اور پالیسی میکرز، خفیف سی مسکراہٹ کے ساتھ ہماری “آنیاں جانیاں” دیکھتے ہیں۔ امریکی کبھی یہ نہیں کہتے ہیں کہ “پاکستانی-امریکیوں” کا موقف غلط ہے لیکن وہ یہ بھی نہیں کہتے ہیں کہ وہ کھل کر ہماری مدد کریں گے۔ اشارہ بس یہی ہوتا ہے؛ “لگے رہو مُنا بھائی”!

جیسا کہ دستور بھی ہے اور رواج بھی، ہماری قوم میں کارکنوں سے زیادہ “لیڈرز” ہوتے ہیں اور ہر لیڈر کی ڈیڑھ اینٹ کی اپنی مسجد ہوتی ہے۔ “مہاگرو” کو ہر لیڈر کی بات سننی ہوتی ہے اسلئے قطعی مختلف تجویزوں اور “دانشوریوں” کو جمع کریں تو “نیٹ رزلٹ”زیرو نکلتا ہے۔ اس وقت سب سے زیادہ کام نوجوان پروفیشنلز خصوصاً ڈاکٹروں کے ویزوں پر ہو رہا ہے۔ پاکستانی تنظیمیں خصوصاً “اپنا” (پاکستانی ڈاکٹروں کی تنظیم کا نام) مبارکباد کی مستحق ہے کہ اتنی محنت سے کام پہلے کبھی نہیں ہوا گو کہ پاکستان کے ایٹم بم کی طرح، یہاں بھی بہت سے لوگ اپنے کاندھے خود ہی تھپکتے رہتے ہیں کہ “میرے دور” میں اس “ایٹم بم” پر کام ہوا، تاہم یہ بھی حقیقت ہے کہ ابھی تک امریکی ویزہ پالیسی کی تبدیلی میں کوئی نمایاں کامیابی حاصل نہیں ہوئی۔ چند افراد کے ویزے لگے ہیں لیکن اُمید ہے کہ انشاالّلہ سب کے لگ جائیں گے۔

عام پاکستانی کمیونٹی کا حال بھی کچھ مختلف نہیں۔ پچھلے مہینے اوہائیو کمیونٹی نے صدر ٹرمپ کے ایک قریبی کانگریس مین کے ساتھ ٹاؤن ہال میٹنگ کا انتظام کیا اور ستّر سے زائد کمیونٹی ممبرز نے فنڈ ریزنگ بھی کی جب کہ چند لوگوں نے اسے درخودِ اعتنا نہ سمجھا۔ اور انکے نہ آنے کا عُذر کیا تھا؟؟؟، “جی ڈیڑھ سے دو گھنٹے کی مسافت ہے”، “جی بچے نے ٹیبل ٹینس کھیلنا ہے”، “جی بیگم نے سہیلیوں کے ساتھ کھانے پر جانا ہے”؛ ظاہر ہے کہ انکار کرنا انکا حق ہے، کوئی زبردستی یا ناراضگی نہیں۔ لیکن چند دن پہلے انھی میں سے ایک نے فون کیا کہ “میرے بھتیجے کا ویزہ “پھنس” گیا ہے ذرا کانگریس مین سے اسکے لئے سفارشی لیٹر بھجوا دیں”!!! پہلی بات تو یہ ہے کہ کانگریس مین کسی ایسے فردِ واحد کے نام لیٹر نہیں لکھے گا جسے وہ جانتا ہی نہیں۔ بفرضِ محال ایسا ممکن بھی ہو تو اتنے سارے کمیونٹی کے ممبران کی مہینوں کی محنت اور رزقِ حلال خرچ کرکے حاصل کی گئ “لائف لائن” کو ایسے دوست پر کیسےلُٹایا جا سکتا ہےجس کے لئے “ترجیح” ٹیبل ٹینس یا “لنچ ان” ہے۔ یہ “لائف لائن” ان لوگوں کی امانت ہے جو گرم بستروں سے نکل کر قومی مقصد کے لئے اکھٹے ہوئے۔ ایماندار بندہ تو صاف صاف بتا دے گا جبکہ کوئی شاطر، جھوٹا وعدہ کرکے “نمبر” بنا لے گا لیکن کرے گا وہ بھی کچھ نہیں۔

ایسا ہی کچھ حال نوجوانوں کا ہے۔ سینئرز کو ایسے ای میل کرتے ہیں جیسے یہ انکا حق ہو لیکن ہر سال “اپنا” (پاکستانی ڈاکٹروں کی تنظیم کا نام) کی اتنی محنت کے باوجود، وہ کام نکلوا کر رفو چکر ہوجاتے ہیں اور جب انھیں کہا جاتا ہے کہ میاں “اپنا” تنظیم کو جوائن کرو تو نازک اندام جواب آتا ہے، جی میں تو “اےپولیٹکل” ہوں، سیاست پسند نہیں۔ لیکن پھر دوبارہ جب وہ کسی ائرپورٹ پر ویزہ کے چکر میں پھنسے دھاڑیں مار رہے ہوتے ہیں تو ان “اے پولیٹکل” بندوں کو اوپر خدا اور نیچے “پولیٹیکل” بندے یاد آرہے ہوتے ہیں۔

پہلے نوجوان، امریکہ میں داخل ہوتے ہی مسائل سے آزاد ہو جاتے تھے اور وہ الگ تھلگ رہ سکتے تھے لیکن اب ایسا نہیں۔ آپ نے پاکستان میں اکثر دیکھا ہوگا کہ کسی یونیورسٹی یا ہسپتال کے وارڈ میں اگر کسی لڑکے کی ہوا اکھڑ جائے تو وہ تختہ مشق بن جاتا ہے۔ ایسی “ماہ رخیں” بھی جن کی ایک آنکھ شمال مشرق اور دوسری جنوب مغرب میں ہو، ناک مُنہ چڑا کر کہتی ہیں “کمینہ مجھے بھی گھور رہا تھا”۔ اب جیسا کہ یہاں ہماری ہوا اکھڑ رہی ہے تو بہت جلد امریکہ میں بھی “بلانڈز” (سنہرے بالوں والی حسینائیں) ہمارے گھورنے سے کام پر “انکمفرٹیبل” ہونے والی ہیں جس کا مطلب ہوگا نوکری سے فارغ کرنے کا عمدہ بہانہ۔ چند ماہ پہلے ایک پاکستانی خاتون ڈاکٹر پر جھوٹا الزام لگا کر نکالنے کی کوششش کی گئ ہے جس کا ہم نے ڈٹ کر مقابلہ کیا اور ہم جیت گئے، کیا گارنٹی ہے کہ ایسی سازشیں پھر نہیں ہوں گی؟ ۔ اگر آج بھی کمیونٹی نے سیاسی عمل میں شامل ہونے کی اہمیت کو نہ سمجھا تو بقول نظیر اکبر آبادی

ع قذاق اجل کا لُوٹے گا دن رات بجا کر نقّارا

‏‎کالم نگار: راؤ کامران علی، ایم ڈی
ہر بدھ وار کو کالم لکھا جاتا ہے۔ اگر پسند آئے تو شئیر کریں۔ مزید کالم پڑھنے کے لئے اس پیج Tez Hay Nok e Qalam کو like کریں شُکریہ

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *