مُفت بری کی عادت اس خون پسینہ بہا کر کھانے والی قوم کو کسے پڑی؟ پنجاب کے جاٹ، گنے کو کس کر ٹرالی پر باندھتے اور چیلنج دیتے کہ کوئی “پنڈ” میں سے گنا کھینچ کر دکھائے اور بڑے بڑے گبھرو اس میں ناکام رہتے۔ لالچ کی حد بڑھی تو پانچ سو من گنا لادنے کی گُنجائش رکھنے والی ٹرالی پر ڈیڑھ دو ہزار من لادا جانے لگا۔ منحنی سے ٹریکٹر کے پیچھے لالچ سے لدی ٹرالی کسی پتنگ کی طرح دائیں بائیں ڈولتی الّلہ کے سہارے منزل کی جانب رواں دواں رہتی یا پھر کبھی الٹ جاتی۔ وزن زیادہ ہوا تو گنے باہر لٹکنے لگے اور آس پاس گزرتے سائیکل سوار ہاتھ بڑھا کر گنا کھینچ لیتے۔ شروع شروع میں کھسیانے ہوکر یہ کام کرتے لیکن آہستہ آہستہ جب یہ چوری “فعلِ عام” بن گئ تو محنت کش کسانوں کی پسینے کی کمائی کو باپ کا مال سمجھ کر کھینچنے کی عادت بن گئ۔ پھیلتا پھیلتا یہ سلسلہ خربوزوں اور تربوز کی ٹرالیوں تک پہنچ گیا۔ “توڑی” (بھوسہ جو گائے بھینس کے چارے کے طور پر کام آتا ہے) کی ٹرالی کے دیو ہیکل گٹھے پر کوئی “صاحبِ ایمان” ہلکا سا کٹ لگا کر کلو دو کلو “توڑی” چوری کر لیتا اور بقیہ رستہ اسی سوراخ سے منوں “توڑی” سڑک پر اڑتی، سائیکل سواروں اور راہگیروں پر “نچھاور” ہوتی۔ کیسے کوئی خودغرض اپنے چھوٹے سے فائدے کے لئے کسی کا ہزاروں کا نقصان کر دیتا اور اگر کوئی ایسا کرتا دیکھ لے تو “چور” شرمندہ ہونے کی بجائے ایسے فخریہ دانت نکالتا گویا “چارلس سوبھراج” ہے۔ جب چوری کو مہارت سمجھنے کی ہوا چلی تو چل سو چل؛ کیا توڑی کیا کپاس، کیا گنا، کیا پھل، کیا پٹرول کیا تیل۔ اس طرح کی سستی بیوقوفیاں کرتے کتنے ہی لوگ چند روپوں کی چوری کے چکر میں بس ٹرک یا اسی ٹرالی کے نیچے آجاتے۔ ظاہر ہے کہ مرے ہوئے کو چور کہنا تو ہمارے معاشرے میں ممنوع ہے اس لئے ان بے موت مرنے والوں سے عبرت لینے کی بجائے “الّلہ دا حُکم” پر اکتفا کر لیا جاتا۔
چوری کی یہی عادت قیامتِ صغرٰی لے آئی۔ مُفت کا تیل لوٹنے کا جنون دو سو کے لگ بھگ قیمتی لوگوں کو زندہ جلا گیا۔ جو آدمی بیوی بچوں کو چھت اور روٹی فراہم کرے وہ کتنا قیمتی ہوگا کہ اسکے نہ ہونے سے ایک کنبہ اُجڑ جائے۔ اگر وہ اپنی بالٹی میں سو لیٹر تیل بھی بھر لیتا تو بھی سات آٹھ ہزار کماتا اور اس سے کتنی کہ خوشحالی آجاتی ؟ لیکن اب جو بچوں پر بدحالی آئے گی اُسکا اندازہ لگانا محال ہے۔ وہ دانشور جن کی منطق یہ ہے کہ غربت اس تیل چوری اور بربادی کا شاخسانہ ہے؛ تو محترم پھر تو آپکی غریب مُلازمہ آپکی بیگم کے زیورات چُرانے میں حق بجانب ہے، آپکا مفلس ڈرائیور آپکی گاڑی کے ٹائر اور نادار خانساماں کھانا چُرا سکتا ہے۔ مزید برآں موٹر سائیکل سواروں یا کار والوں پر کونسی غربت نے یلغار کیا تھا؟ کیا ہے کوئی جواب؟
قوم لیڈروں کی بے ایمانی دیکھ دیکھ کر بےحس ہوگئ ہے۔ جس گھر میں باپ چور اور کرپٹ ہو، اولاد میں سے بھی زیادہ تر ایسے ہی ہونگے۔ یہ اصولِ فطرت بھی ہے اور قانونِ قُدرت بھی۔ میڈیا کی آزادی نے چوری کو فیشن اور بےایمانی کو اسٹائل بنا کر رکھ دیا ہے۔ نیشنل ٹی وی پر کروڑوں لوگ ایک پروگرام دیکھ رہے ہوتے ہیں اور ایک سٹنگ ایم این اے کہتا ہے کہ “کیا کرپشن پر ہمارا حق نہیں” اور اس پر سخت ایکشن لینے کی بجائے سب دانت نکال دیتے ہیں۔ اگر پوری قوم نہیں تو کم ازکم اسکے ہزاروں ووٹر یہ سُننے بعد کیا سوچیں گے کیا سیکھیں گے اور کیا کریں گے۔ اینکر کی ریٹننگ اور تنخواہ بڑھ جاتی ہے، کچے ذہنوں کے ناظرین جائیں بھاڑ میں۔ جب کینسر جسم میں پھیل جائے تو علاج آسان نہیں؛ اسے بھی جلایا جاتا ہے۔ کاش کہ نادان اس آگ سے ہی کچھ سیکھ لیں! لیکن ایسا نہیں ہوگا، چند دنوں میں پھر کوئی پٹرول کا ٹرک اُلٹے گا اور لوگ بالٹیاں پھر رہے ہوں گے۔
گورنمنٹ کی ذمہ داری یہ نہیں ہے کہ عوام کے ٹیکسوں سے لاکھوں روپے “متاثرین” میں بانٹتی پھرے۔ انھی روپوں سے بہاولپور میں برن یونٹ بنایا جا سکتا تھا تاکہ جلے ہوؤں کا علاج ہو سکے۔ اور سوال یہ ہے کہ چالیس ہزار لٹر تیل سے بھرے ٹرک کا ٹائر پھٹا اور وہ اُلٹ گیا تو پولیس نے بروقت ٹرک کے اردگرد ایک سو مربع میٹر تک کا ایریا بلاک کیوں نہیں کیا؟ پٹرول یا گیس کی کمپنیاں اتنی امیر ہیں کہ ان پر سخت ریگولیشنز نافذ کی جاسکتی ہیں
ہر تین مہینے بعد پٹرول یا گیس کے ٹرک کی انسپیکشن ہو اور سارے ٹائر بدلے جائیں۔
ٹرک کا ڈرائیور تجربہ کار ہو، بوڑھا نہ ہو، مسلسل پانچ گھنٹے کی ڈرائیو کے بعد دو سے تین گھنٹے آرام لازمی ہو۔ ایک دن میں ٹوٹل دس گھنٹے سے زیادہ اور ہفتے میں تین دن سے زیادہ ڈرائیو نہ کرے۔
ٹرک ڈرائیور کا میڈیکل چیک اپ ہوائی جہاز کے پائیلٹ کی طرح ہو۔ جو انسان چالیس ہزار لٹر کے “پٹرول بم” کو چلا رہا ہو اُسکا ہارٹ اٹیک قیامت لا سکتا ہے۔
پٹرول یا گیس کی کمپنیاں ٹرکوں کی ویڈیو مانیٹرنگ کریں اور کسی حادثے کی صورت میں “ریپڈ رسپانس” ٹیم ہو۔
قوم سیاستدانوں کے ڈراموں سے عاجز آگئ ہے۔ لاشوں کو چیک دینے کی بجائے زندہ لوگوں کو چیک کیا جائے، چیک کروایا جائے وہی رقم معاشرے کی تعلیم اور صحت پر خرچ کی جائے تاکہ ایسے حادثات کی روک تھام کی جائے۔
کالم نگار: راؤ کامران علی، ایم ڈی
ہر بدھ وار کو کالم لکھا جاتا ہے۔ اگر پسند آئے تو شئیر کریں۔ مزید کالم پڑھنے کے لئے اس پیج Tez Hay Nok e Qalam کو like کریں شُکریہ