اگر آپ لاہور کی اکبری منڈی کے سامنے سے گُزریں اور بغل میں پندرہ بیس لاکھ روپے سے بھرا تھیلا دبائے، پان کی پیک تھوُکتے کسی آڑھتی سے یا بیڑا دبائے کسی تاجر سے “شریفوں” کی “بدمعاشی” یا کرپشن کے بارے میں پُوچھیں گے تو وہ بے پروائی سے مندرجہ ذیل میں سے ایک جواب دیں گے، “سانوں کی”، “الّلہ دی الّلہ جانے” یا “الّلہ پُچھے گا”؛ پاکستان میں یہ رویہ ہر اُس انسان کا ہے جو امیر ہے، اور اسکے پاس دولت کی ریل پیل ہے۔ دانشوارانِ وطن محفلوں میں مشروب کی چُسکیاں لیتے ہوئے کرپشن کا ذکر مصالحے دار نمکو کی طرح کرتے، سسٹم کو گالیاں دیتے واپس اپنے اپنے گھروں کو نکل جاتے ہیں اور پھر وہی صبح پھر وہی دن۔ غریبوں کو اتنی فرصت نہیں کہ روٹی اور بیماری سے زیادہ سوچ سکیں اور وہ تو کرپشن زدہ الیکشن کا انتظار کرتے ہیں تاکہ ایک ہاتھ میں چند نوٹ آئیں اور دوسرا ہاتھ کسی مقدس کتاب پر رکھا جائے، ووٹ دینے کی قسم کے لئے۔ جبکہ مڈل کلاس بچوں کی تعلیم اور بیٹیوں کے جہیز میں الجھی رہتی ہے۔
ایسے میں ایک بندہ کھڑا ہوا جو ہر اس نعمت سے نوازا گیا تھا جس کو بل گیٹس بھی ترستا ہوگا؛ بے پناہ وجاہت، خیرہ کن اسٹارڈم، دو نسلوں کی حسیناؤں کے دلوں کی دھڑکن اور ان سب کے بعد اتنی دولتمند خاتون کا شوہر بنا جس کے سامنے “ٹوئٹر باجی” اور “بنتِ زرداری” کی حرام کی وراثت بھی ہیچ ہے۔ لیکن وہ “سانوں کی” یا الّلہ پر چھوڑنے کی بجائے الّلہ کے نبی کی سُنت کے مُطابق حق پر ڈٹ گیا۔ ہم جیسے لوگ اس پر ہنستے رہے۔ اپنی ہی ایم این اے کی سیٹ ہار گیا۔ دس سال پہلے تک “سنگل سیٹر”کہلاتا رہا۔ طلاق ہو گئ، مذاق بن کر رہ گیا لیکن وہ ڈٹا رہا۔ جس زمانے میں کراچی سے لگ بھگ ہزار کلومیٹر دور بیٹھے خود ساختہ “دبنگ” صحافی پیلا پاجامہ پہن کر بھی الطاف حسین کا نام نہیں لیتے تھے، وہ دلیر لیڈر اسے للکار کر کراچی گیا اور سٹپٹا کر الطاف حسین نے اپنی ہی رابطہ کمیٹی کی پھینٹی لگوا دی۔ کئ دانشور اسے کم عقل کہتے رہے کہ مشرف کی وزیراعظم بنانے کی درخواست کیوں ٹھکرا دی تو بہت سے زرداری سے ہاتھ ملانے کا مشورہ دیتے رہے۔لیکن وہ سب کو پچھاڑتا رہا۔ کوئی اُسکی مشقتوں کا کریڈٹ جنرل پاشا کو دیتا رہا تو کوئی راحیل شریف کا شُکریہ ادا کرتا رہا لیکن وہ بار بار جمہوریت کی حمایت کرتا رہا۔ اب تو شریفوں کا اپنا چُنا اور پسندیدہ آرمی چیف ہے تو اب کس کو الزام دیں؟ دو سال سے پانامہ لیکس کے پیچھے پاگلوں کی طرح لگا رہا۔ اگر ذرا سا ایمان زندہ ہے تو دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیں کہ اگر عمران خان نہ ہوتا تو اپوزیشن میں سے کسی کو وزارت کسی کو پیسہ اور کسی کا پیٹ ڈیزل سے بھر کر مُنہ بند کردیا جاتا لیکن انمول کو کون خرید سکتا ہے۔ آگے سب تاریخ ہے کیسے سپریم کورٹ سے لیکر جے آئی ٹی تک قانونی کاروائی کی گئ اور جے آئی ٹی نے نام کے “شریفوں” کو عادی مجرم قرار دے دیا۔ اب پتا نہیں آگے نیب کیا کرے۔ ہوسکتا ہے “ملک کے عظیم تر مفاد” میں بڑی طاقتیں کچھ سمجھوتے کرلیں لیکن بہر کیف عمران خان نے سب کو کرپشن کے حمام میں ننگا کردیا ہے۔ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ عمران خان بھی جائے گا، تو وہ تو پہلے ہی قربانی دینے کا اعادہ کر چکا ہے۔ “ون مین آرمی”کا مفہوم ایک شجاع مرد کے لئے استعمال کیا جاتا ہے جو پوری فوج کے برابر لڑ سکتا ہو۔ پوری دنیا اس ” ون مین آرمی” کو دیکھ سکتی ہے جو ہمارے ملک کی کرپشن کے جتھوں سے اکیلا بھڑ گیا اور سب کو دھول چٹا دی۔
سن 2001 میں آسکر کے لئے نامزد ہندی فلم “لگان” ریلیز ہوئی تھی جس میں ایک سادے مگر نڈر دیہاتی (عامر خان ) نے انگریز راج کو کرکٹ میں ہرانے کے لئے دیگر دیہاتیوں کو کھیلنے کے لئے تیار کیا تاکہ سب گاؤں والے انگریزوں کے ظالمانہ ٹیکس سے جان چھڑوا کر پیٹ بھر کر روٹی کھا سکیں۔ ان دنوں میں گرتے پڑتے ایم بی بی ایس کرنے کے بعد امریکہ کے امتحان کی تیاری کررہا تھا اور لگان فلم کے بلا تھامے ہیرو عامر خان کا پوسٹر میری اسٹڈی ٹیبل کے سامنے لگا تھا جس پر لکھا تھا “ایک نوجوان کی ہمت کی داستان”- جوش اور ہمت دلانے کے لئے یہ فقرہ ہی کافی تھا۔ آنے والے دنوں میں جب میرے بچے کسی مشکل امتحان سے تھک جائیں گے تو میں انھیں بلا تھامے ایک اور ہیرو کا پوسٹر لا کر دوں گا جس پر لکھا ہوگا، کرپشن کے خلاف، “ایک جوان کی ہمت کی داستان”!!!!
نوٹ!!!یہ کالم، 12 جولائی2017کولکھا گیا تھااور آج عمران خان کے وزیراعظم بننے کے بعد آپ کیساتھ دوبارہ شئیرکیاجارہا ہے!!!
وزیراعظم عمران خان
پاکستان زندہ باد!!
کالم نگار: راؤ کامران علی، ایم ڈی
ہر بدھ وار کو کالم لکھا جاتا ہے۔ اگر پسند آئے تو شئیر کریں۔ مزید کالم پڑھنے کے لئے اس پیج Tez Hay Nok e Qalam کو like کریں شُکریہ