!ٹیکس چوری سے کرپشن تک

یہ کہانی بھٹو دور سے شروع ہوتی ہے۔ وزیراعظم بننے سے پہلے بطور صدر، بھٹو نے جنوری 1972 میں صنعتی اثاثے قومیانے کا عمل شروع کیا اور اتفاق فونڈری جو کہ اس وقت پاکستان کی سب سے بڑی انڈسٹری تھی اس کا شکار ہوگئ۔ کاروبار کے قومیانے کے بعد ہر کاروباری کی طرح میاں شریف بھی ڈر کر رہ گئے۔ کاروباری انسان کے پاس “بنئے کے دماغ کے ساتھ میاں بھائی کی ڈیرنگ” اگر ہو بھی تو وہ محض کاروباری رسک لینے تک ہوتی ہے ناکہ سیاستدانوں یا فوج کے ساتھ الجھنے کیلئے۔ بعد میں قومیائے گئے اثاثے لوٹائے گئے تو “بڑا جرنیل” محسن ٹھہرا اور کس کا نہ ٹھہرتا؟؛ گلی کا غنڈا “رضیہ” کی عزت بچائے تو محلے کے لوگ سارے عیب بھلا کر اسے ہیرو بنا دیتے ہیں یہاں تو برسوں کی کمائی لوٹائی گئ تھی۔ کاروبار واپس ملنے کے بعد اسّی کی دہائی میں “شریفین” کی ملوں کی تعداد پانچ سے تیس ہو گئ اور سالانہ ریوینیو چار سو ملین ڈالر تک پہنچ گیا؛ لیکن اس واقعے کے بعد میاں شریف اور ان کے بھائیوں کے دلوں میں ڈر بیٹھ گیا اور آپ کو بھی پتا ہوگا کہ یہ ڈر کیسا ہوتا ہے اگر آپ مڈل کلاس شریف فیملی سے ہیں اور کسی “چکر” میں آپکو بے قصور تھانے بُلایا جاتا ہے اور تھانیدار خالی کرسی کے ہوتے ہوئے بھی آپکو کھڑا کرکے آپکی جانب جوتوں سمیت پاؤں میز پر رکھ کر توُ تڑاخ کرکے چلے جانے کا کہتا ہے۔ یاد رہے ابھی گالی گلوچ یا تھرڈ ڈگری کی بات نہیں ہو رہی؛ صرف غیر منصفانہ رویہ ہی انسان کو ڈرانے اور عزت اور رزق بچانے کا خوف پیدا کرنے کے لئے کافی ہے۔ شریف فیملی کا ڈر انھیں سیاستدانوں سے بچاؤ کے لئے خود سیاستدان بننے کی طرف لے گیا, لوہے کو لوہے سے کاٹنے کے لئے لوہار سیاستدان بن گیا۔ “بڑا جرنیل”، محسن ہونے کے ساتھ ساتھ سیاسی سہارا بھی بن گیا، باقی تاریخ ہے۔

1980 کی دہائی کے اوائل میں ہی میاں شریف نے اپنے ایک ممدوح علامہ صاحب سے جو آجکل کینیڈا میں فیض بانٹ رہے ہیں، سے ٹیکس کے حوالے سے مشورہ کیا تو علامہ صاحب نے انھیں بتایا کہ شرعی لحاظ سے ٹیکس نہ دینا(یا یوں کہہ لیں ٹیکس چوری کرنا) جائز ہے تاہم اسلامی حکومت کی یہ پالیسی ہونی چاہئے کہ ٹیکس نہ لگایا جائے۔ اُس وقت تک شریف فیملی ابھی حکومت تک نہیں پہنچی تھی۔ میاں شریف نے عہد کیا کہ اگر کبھی انکے بچے حکومت میں آئے تو عوام سے ٹیکس نہیں لیں گے۔ لیکن اب مسئلہ یہ تھا کہ کبھی بھی “بھٹو کی بیٹی” واپس آکر قومیانے کا کام دوبارہ شروع کرسکتی تھی اس لئے دودھ کا جلا خاندان چھاچھ کو پھونک پھونک کر پیتے ہوئے ٹیکس دئے بغیر اپنی دولت ہُنڈی کے ذریعے بیرونِ مُلک بھیجنے لگ گیا۔ شواہد یہ بھی بتاتے ہیں کہ میاں شریف نے ستّر کی دھائی میں قومیانے کے فوراً بعد بہت سی رقم کو بیرونِ مُلک ٹرانسفر کیا۔ یہی وہ ٹیکس چوری کی “منی ٹریل” ہے جس کا پتا جرنیلوں کو ہے جرنیلوں کی اولادوں کو ہے اور اسی “منی ٹریل” کی دُم پر اتنی بار پاؤں رکھا گیا ہے کہ بلیک میل ہونے والا بھی تنگ آگیا۔ ہر مشکل مرحلے پر ایک “اصول پسند” وزیر ساتھ دینے کی بچائے اپنے وزیراعظم کو ہی ہاتھ دِکھا دیتا ہے کیونکہ وہ فوج کا پسندیدہ ہونے کے باعث ایسے “رازوں” کا امین ہے۔

شریف خاندان کی دوسری نسل حکومت اور تیسری نسل دولت کمانے میں لگ گئ۔ بڑے میاں صاحب کے بچے سیاست سے دور لندن میں کاروبار کرنے لگے اور چھوٹے میاں صاحب کے فرزند ارجمند نے پنجاب سنبھال لیا؛ سیاسی طور پر بھی اور کاروباری نقطہ نظر سے بھی۔ سچی بات تو یہ ہے کہ حسن اور حسین نواز نے لندن میں پراپراٹی کے کام اور سعودی اسٹیل مل سے پیسہ وزیراعظم باپ کے اثرورسوخ کے ساتھ ساتھ اپنی کاروباری سوجھ بوجھ سے کمایا لیکن چونکہ بنیادی انویسٹمنٹ ٹیکس چوری کی رقم سے ہوئی تھی اس لئے وہ کبھی کسی قطری کا خط دکھاتے رہے اور کبھی “نامعلوم دوست” کی انویسٹمنٹ بتاتے رہے۔ یاد رہے کہ اندرونِ
ملک کرپشن کی وجہ سے کوئی بھی سیاستدان حتی کہ آج بھی نواز شریف نہیں پھنسے ہیں کیونکہ یہ سسٹم کرپشن کو ہضم کر لیتا ہے، یہ بیرونِ ملک کی اُگلی ہوئی ٹیکس چوری اور منی لانڈرنگ ہے کیونکہ وہاں ہاضمہ ذرا مختلف ہوتا ہے۔آف شور کمپنیوں پر الگ سے کالم لکھا جائے گا لیکن یاد رہے کہ ضروری نہیں کہ یہ ناجائز ہی ہوں اسی لئے عمران خان کی بھی آف شور کمپنی ہے۔ ہر مُلک کے بزنس مین ایسی کمپنیاں ٹیکس بچانے کیلئے کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر حال ہی میں این ایف ایل کی ٹیم “اوکلینڈ ریڈرز” کے لاس ویگاس شفٹ ہونے سے صرف ایک فٹبالر کھلاڑی “ڈیرک کر” کو پاکستانی ایک ارب روپے کے قریب ٹیکس کی بچت ہوگی۔ لیکن اصولی بات یہ ہے کہ کوئی بھی قوم اپنے وزیراعظم سے یہ امید نہیں رکھتی۔

آجکل چُپ چاپ چھوٹے میاں صاحب کے چُپ چاپ صاحبزادے “قومی طریقوں” کے مطابق کرپشن کرتے ہوئے بھی معصوم بنے پھرتے ہیں۔ حلّا دودھ کو بند کروا کے انہار دودھ شروع اور پوری پولٹری مارکیٹ پر کنٹرول۔ زرداری تو بیچارا دس پرسینٹ لے کر لوگوں کو تحفظ دے کر کاروبار تو کرنے دیتا لیکن ادھر چھوٹے میاں کے سپوت ایک ہی بڑے پولٹری جھٹکے میں نجانے کتنے لوگوں کے چھوٹے چھوٹے پولٹری شیڈ بند کروا کرمفلس بنا دیتے ہیں۔ لیکن مملکتِ خداداد میں کون ایسے ظلم اور ایسی “کرپشن” پر ایکشن لیتا ہے؟

اِنکم ٹیکس کی چوری سے بیرونِ مُلک کاروبار کرنے والوں سے حکومت لیکر ادارہ کسان سے دودھ اور چھوٹے پولٹری فارمرز سے رزق چھین لینے والوں کو حکومت دینے کا سوچا جا رہا ہے۔ کرپشن کے ساتھ ایسے کرپٹ طریقے سے نمٹنا بھی ہمارے مُلک میں ہی مُمکن ہے۔

کالم نگار: راؤ کامران علی، ایم ڈی
ہر بدھ وار کو کالم لکھا جاتا ہے۔ اگر پسند آئے تو شئیر کریں۔ مزید کالم پڑھنے کے لئے اس پیج Tez Hay Nok e Qalam کو like کریں شُکریہ

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *