لوگوں سے سُنا تھا کہ ایف ایس سی مُشکل ہے، ایک بار میڈیکل کالج میں داخلہ مل جائے تو ایم بی بی ایس تو “شُغل مُغل” ہے۔ میڈیکل کالج میں پہنچے تو “سب اسٹیج” (پہلا کلاس ٹیسٹ) میں ہی پتا چل گیا کہ ٹینش کی وجہ سے لوگ خودکشی کیوں کرتے ہیں۔ خُدا خُدا کرکے ایم بی بی ایس کرکے ہاؤس جاب میں پہنچے تو جانا کہ آج تک تو جو بھی زندگی گُزاری وہ اورلینڈو کی ڈزنی لینڈ تھی اور آنے والی زندگی اورلینڈو کی جھیل کی طرح تھی جہاں مسائل مگر مچھ کی طرح منہ کھولے انتظار کر رہے تھے۔
نیا میلینیم شروع ہو چکا تھا اور اسکا پہلا سال اختتام کو تھا جب وارڈ میں ہاؤس آفیسر کے طور پر قدم رکھا۔ ہر وارڈ میں دس سے پندرہ کے قریب ہاؤس آفیسرز تھے جن میں سے صرف ٹاپ چار یا پانچ کو ماہانہ “خطیر” تنخواہ یعنی مبلغ اڑتیس سو روپے ملتے تھے اور باقی “ڈاکٹر صاحبان” سے مُفت میں بیگار لی جاتی تھی اور وہ گھر سے پیسے لیکر آتے تھے۔ صبح پانچ بجے “پری راؤنڈ” سے لیکر رات دس بجے کے پی جی آر راؤنڈ کے بعد جو کبھی کبھی ایک بجے تک چلتا تھا، اگر سونے کو ہی وقت مل جائے تو غنیمت تھا، کوئی اور جاب بندہ کیا کرے؟۔ “فُل ڈاکٹر صاحب” کو گھر سے پیسے مانگتے شرم آتی تھی لیکن چارا کوئی اور تھا نہیں۔ اب فرض کریں کہ “خوش قسمت” اڑتیس سو روپے کمانے والا جس سے شادی کرنا چاہے وہ بھی “خوش قسمت” اڑتیس سو روپے کمانے والی ہو اور دونوں چوبیس پچیس سالہ ڈاکٹرز گھر بسانا چاہتے تو ٹوٹل چھیتر سو کا بمشکل پانچ مرلے کا گھر کرایے پر ملتا اور کھانے پینے کیلئے حضرت بہاؤالدین زکریا کے مزار پر جانا پڑتا وہ بھی اگر ٹائم پر وارڈ سے نکل کر نیاز کی دیگ ختم ہونےسے پہلے پہنچ پاتے۔ ایک سال کی ہاؤس جاب کے بعد یہ خطیر چھیتر سو بھی بند ہو جاتے اور دونوں گھر بیٹھ کر چھ مہینے سے ایک سال میں ایف سی پی ایس پارٹ ون کرتے اور پھر مزید چار سال بغیر تنخواہ کے اسپیشلائزیشن کرتے اور پھر تیس سال سے بھی زیادہ عمر میں پارٹ ٹو۔ ابھی یہ قابل ڈاکٹروں کا ذکر ہو رہا ہے جن کا ایم بی بی ایس یا ایف سی پی ایس میں کوئی سال ضائع نہیں ہوا، تو ذرا “ڈھیلے ڈاکٹروں”کا اندازہ خود کر لیں۔ لیڈی ڈاکٹرز تو بیچاری صبر شُکر سے گزارہ کر لیتیں لیکن “لڑکے کم آدمی” نفسیاتی مسائل کا شکار؛ کبھی وارڈ میں فی میل میڈیکل اسٹوڈنٹس کو “پڑھانے” کے لئے ایکدوسرے سے گتھم گتھا تو کبھی کسی نرس کے لئے “سوئمبر”۔ ان آنکھوں نے یہ بھی دیکھا ہے کہ کبھی کسی “بیروزگار” پی جی آر نے نرس کو امپریس کرنے کے لئے کڑاہی اور پیپسی آرڈر کی تو کھانے پینے کے بعد نرس نے ہنستے ہنستے یہ کہتے ہوئے بل خود ہی دے دیا، “ڈاکٹر صاحب یہ خرچہ کرکے آپ پورا مہینہ تنگ رہیں گے” اور ڈاکٹر صاحب بھی جھینپتے ہوئے، بل دینے پر زیادہ اصرار نہ کرتے۔ اب تیس سال کے لگ بھگ بندہ نہ شادی کر سکے اور نہ ہی کسی کو دو وقت کی روٹی کھلا سکے تو آخر “کرے” کیا؟
اور پھر ینگ ڈاکٹرز ایسوسی ایشن (وائی ڈی اے) کی انٹری، فلم “دامنی” میں “سنی دیول” کی طرح ہوئی۔ قابل نوجوان ڈاکٹروں نے دیکھا کہ ایف ایس سی میں میرٹ نہ بنا سکنے والا کوئی نالائق، وردی پہن کر مُنہ اٹھا کر وارڈ میں رعب جھاڑنے آجاتا، سلیوٹ کا بھی متمنی ہوتا اور پلاٹ کا بھی؛ یا پھر ایم بی بی ایس کے فرسٹ پراف سے بھی آسان ، مُقابلے کا امتحان پاس کرکے کوئی راتوں رات پردھان بن جاتا اور بے پناہ مراعات کا حقدار بھی؛ تو بچپن سے مُسلسل امتیازی پوزیشن حاصل کرنے والا ڈاکٹر آخر کب تک زندگی کے قیمتی سال کسمپرسی میں گُزارے؟ بس پھر کیا تھا سڑکیں احتجاج کرنے والوں سے بھر گئ۔ سخت گرمی میں سفید کوٹ پہنے یہ کم سن اپنے حصے کے رزق کے حصول کی لڑائی لڑنے اکھٹے ہوئے۔ حکومت نے روایتی ہتھکنڈے استعمال کئے، ڈاکٹروں پر لاٹھیاں برسائیں، خون بہایا، جیلوں میں ڈالا، قوم کی قابل فخر بیٹیوں کو سڑکوں پر گھسیٹا گیا لیکن یہ نازک دِکھنے والے پڑھاکو بچے ڈٹے رہے۔ ہڑتال کے باعث ان کی اسپتالوں سے غیر موجودگی سے عوام کو بھی انکی اہمیت کا پتا چکا اور جب عوام بلبلائی تو حکومت کو اگلے الیکشنز جیتنےکی یاد آئی اور مُذاکرات ہوئے۔ کئ سالوں کی وائے ڈی اے کی محنت اور جدوجہد کے بعد آج یہ عالم ہے کہ ہاؤس آفیسر کی تنخواہ پچاس ہزار روپے ماہانہ اور پوسٹ گریجویٹ رجسٹرار (پی جی آر) کی تنخواہ ساٹھ سے ستر ہزار ماہانہ ہے اور سو فیصد ڈاکٹروں کو تنخواہ مل رہی ہے۔ ہاؤس آفیسر “جوڑا” اس تنخواہ میں خوشحالی سے رہ سکتا ہے۔ رومانوی، جسمانی اور ذہنی سکون کے ساتھ ساتھ جس ماں نے بچے کو معاشی تنگی اور دیر سے شادی ہونے کے باعث تیس سال کی عمر میں پیدا کرنا تھا اب پچیس سال کی عمر میں پیدا کر سکتی ہے جو ماں اور بچے دونوں کی صحت کے لئے بہتر ہے۔ زندگی پہلے سے آسان اور خوبصورت ہے۔
ینگ ڈاکٹرز ایسوسی ایشن کا قیام میرے مُلک چھوڑنے کے کئ سال بعد عمل میں آیا لیکن میں خود کو انکا ممنونِ احسان سمجھتا ہوں کیونکہ انکی وجہ سے مجھ جیسے دیگر ڈاکٹروں کا معیارِ زندگی بہتر ہوا ہے۔ ہڑتال کے دنوں میں چند جونئیرز سے فون پر بات ہوئی تو میں نے انھیں کہا کہ ڈاکٹروں کا کام ہسپتال بند کرنا نہیں تو انھوں نے کہا، “بھائی، آپ ہی کوئی حل بتا دیں؟ گورنمنٹ اور انکے وزیر تو اتنے مغرور ہیں کہ مذاکرات کرنے پر آمادہ نہیں ہوتے اور اگر ہوں تو ہماری نہیں سُنتے بلکہ حُکم یا دھمکیاں دیتے ہیں۔ ہماری تو جب ہی سُنتے ہیں جب ہڑتال کریں”-بدقسمتی سے وائے ڈی اے حکومتی وعدہ خلافی کے خلاف پھر سڑکوں پر ہے۔ حکومت اگر مخلص ہو تو وزیروں مشیروں کے گاڑیوں کے فلیٹ اور بیوروکریٹس کی سو سو کنال کی کوٹھیوں کو کم کرکے اس بچت سے ڈاکٹروں کے مطالبات اور حق بجانب ڈیمانڈز کو ایڈجسٹ کیا جاسکتا ہے، سروس سٹرکچر بہتر بنایا جاسکتا ہے۔ اگر ان ہونہاروں کو سنجیدگی سے نہ لیا گیا تو یہ بیرونِ مُلک بھی جاسکتے ہیں اور مقابلے کے امتحان بھی پاس کرسکتے ہیں اور دونوں صورتوں میں یہ میڈیکل ٹیلنٹ کا ضیاع ہوگا۔
کالم نگار: راؤ کامران علی، ایم ڈی
ہر بدھ وار کو کالم لکھا جاتا ہے۔ اگر پسند آئے تو شئیر کریں۔ مزید کالم پڑھنے کے لئے اس پیج Tez Hay Nok e Qalam کو like کریں شُکریہ