عالمگیر مضمون

آٹھویں اور دسویں جماعت میں انگلش کے پیپر میں جو مضمون لکھنے کو دیا جاتا تھا وہ عموماً “مائی بیسٹ فرینڈ”، “مائی بیسٹ ٹیچر” یا “مائی فادر” ہوتا تھا۔ اردو زبان کے مُلک میں اتنی ڈھیر ساری انگریزی یاد کرنا مشکل کام تھا اسلئے یار لوگوں نے اُسکا حل “یونیورسل ایس اے” کی صورت میں نکال رکھا تھا جسے آسانی کے لیےآپ “عالمگیر مضمون” کہہ سکتے ہیں۔ “عالمگیر مضمون” میں اسی فیصد فقرے ایسے تھے جو مائی بیسٹ فرینڈ” سے لیکر “مائی بیسٹ ٹیچر” تک کسی بھی شخصی ٹاپک میں فٹ ہو سکتے ہیں؛ مثلاً “وہ بہت ایماندار ہے”، “وہ بہت محنتی ہے”، “وہ میرے ساتھ مخلص ہے”۔ مضمون سے پہلے بس ہلکا سا تعارف کرواؤ اور پھر جھٹ سے سارے عالمگیر فقرے گیئر بدلتے ہوئے کبھی “بیسٹ فرینڈ” تو کبھی “بیسٹ ٹیچر” پر لپیٹ دو۔

مضامین لکھنے کا سلسلہ عمر بھر جاری رہتا ہے، کبھی نوکری کی درخواست کی صورت میں تو کبھی اچھی بُری خبر دینے کے لئے اور کبھی دلی جذبات کے اظہار کے لئے۔ ٹیکنالوجی کے ساتھ، مضمون خط سے اچھل کر ای میل تک آیا اور بلیک بیری سے ہوتا آجکل فیس بُک اور وٹس ایپ پر آگیا ہے لیکن مضمون کے مواد میں کوئی خاص تبدیلی نہیں آئی۔ وہی دھڑکتے دلوں کی داستان وہی بچھڑتے ہوئے کاروان۔ سولہ سترہ سال کا نوخیز لڑکا یا الھڑ دوشیزہ مضمون میں پیامِ محبت بھیجتی ہے تو دل چیر کر سامنے رکھ دیتی ہے، “لے میرے ستمگر، پڑھ لے حالِ دل”، لیکن جب ایک عیار مرد کسی عورت کی طرف یا کوئی جہان دیدہ عورت کسی مرد کی جانب ہاتھ بڑھاتی ہے تو بےحد احتیاط سے۔ مضمون یہاں بھی ناقابلِ گرفت اور “عالمگیر” ہی ہوتا ہے؛ مثلاً “میں آپ کی کرکٹ کے زمانے کی فین ہوں”، “فلاحی ادارہ بنا کر جو کارہائے نمایاں آپ نے انجام دیا وہ اور کون کرسکتا تھا، میں تو ساری رات جاگ کر آپ کے بارے میں یہی سوچتی رہتی ہوں”۔ “کتنا خوش نصیب ہو گا وہ انسان جو آپکا جیون ساتھی بنے گا”۔ “کون ہے دنیا میں جو آپ سے شادی نہ کرنا چاہے”۔ یہ فقرے عالمگیر اس لئے ہیں کہ محبوب پر دل کی کیفیت بھی بخوبی عیاں ہو جائے اور اگر جواباً محبوب جھاڑ پلا دے تو چہرے پر ہکا بکا رہ جانے کے تاثرات پیدا کرکے، چند آنسو ٹپکا کر،”عالمگیر مضمون” کا گئیر تبدیل کرکے، سارے فقرے “آپ بڑے بھائی جیسے ہیں” یا “میرے آئیڈیل ہیں”, “آپ غلط سمجھے ہیں”،جیسے کھاتے میں ڈال کر ہاتھوں سے مٹی جھاڑ دیں اور آپکی بجائے محبوب/بڑا بھائی/لیڈر کے اوسان خطا ہو جائیں گے۔ ایسے ہی داؤ پیچ شکاری مرد, معصوم لڑکیوں پر آزماتے ہیں۔

اگر آپ کسی بھی لیول پر سیاسی عمل کا حصہ رہے ہیں تو آپ کو پتا ہوگا کہ کیسے در در جا کر ووٹ مانگنے پڑتے ہیں، منتیں کرنی پڑتی ہیں، کیسے ہر دم لوگوں کے کام کرنے پڑتے ہیں۔ مئ 2013 کے سخت گرمیوں کے الیکشن میں امیدواروں کی سارا دن گلیوں میں ووٹ مانگنے سے بُری حالت ہوئی ، لیکن دوسری طرف ایک “بی بی”، ایم این اے کی ریزرو سیٹ پر انگلی ہلائے بغیر بیٹھ گئیں اور آجکل میرٹ میرٹ کی رٹ لگا رہی ہیں۔ بغیر محنت کے ودیعت کردہ کوئی بھی عہدہ یا مُقام کسی کو نشے پر لگانے کے مترادف ہوتا ہے۔ نشئ کو نشہ دیتے رہو تو ٹھیک ورنہ کیا ماں کی جمع پونجی کیا بہن کا زیور اور محلے میں تماشہ الگ۔ “ویلیاں” کھانے والی سوچتی ہیں کہ اگر اتنی آسانی سے ایم این اے بنا گیا تو مزید “کوشش” کرکے “کیا سے کیا” بنا جا سکتا ہے اور اگر مُراد بر نہ آ سکے تو پھر ہنگامہ! کیا خاتون نے خود اقرار نہیں کیا کہ وہ دوبارہ ایم این اے کی سیٹ مانگنے گئیں تھیں گویا کہ اگر وہ سیٹ مل جاتی تو “بیہودہ ٹیکسٹ” کو بھی پانچ سال کی “مزید” ایکسٹینشن مل جاتی اور قوم کی ماؤں بہنوں کو “بدکردار عمران” سے “بچانے” کا عمل بھی مزید پانچ سال کے لئے موخر ہو جاتا۔ اے قوم کی قابلِ عزت بیٹی! آپ الزامات لگانے کے دوران کبھی سیاستدان بن جاتی ہیں اور کبھی غیرت کی پُتلی۔ یہ کنفیوژن ایسے ہی ہے جیسے سینئیر اداکار رضوی صاحب جو ڈاکٹر بھی تھےاور ایکٹر بھی؛ انکے بارے میں مشہور تھا کہ جب وہ ڈاکٹری کرتے تھے تو ایسا لگتا تھا کہ اداکاری کر رہے ہیں اور جب اداکاری کرتے تھے تو ایسا لگتا ہے ڈاکٹری کر رہے ہیں۔ جب قوم کی بہن بیٹی کی ساتھ ظلم ہو تو قوم اسکے ساتھ ہوتی ہے اور اب بھی ہوگی اگر بیٹی قوم کو کنفیوز نہ کر رہی ہو تو۔ پی ٹی آئی کے لئے بھی نااہلی کا مقام ہے کہ اگر وہ کرپٹ تھی تو پہلے کیوں نہیں کاروائی کی؟ گویا اگر ٹیکسٹ لیک نہ ہوتے تو اُسکی کرپشن بھی لیک نہ ہوتی۔

جس آدمی نے ربعہ صدی تک مُلک کے لئے زندگی جلا دی، بچوں کے پیار اور بیوی کے سُکھ سے محروم ہوگیا، کبھی بد کلامی تک کا الزام نہیں لگا، تو کیا چند سال پرانے ٹیکسٹ (اگر ہوں بھی تو) جن کا بھرپور “ہرجانہ” وصول کیا جا چُکا ہے کی وجہ سے ذلیل کیا جائے؟ نااہل ہو جائے؟تاریخ گواہ ہے کہ جو محسن کی عزت کی لاش پر کھڑے ہوکر قد بُلند کرتے ہیں، لاش کے سڑنے کے ساتھ ہی وہ واپس زمین پر آلگتے ہیں اور پھر دور دور تک کوئی ان پر احسان نہیں کرتا، ہاں انھیں استعمال ضرور کرتے ہیں اور ہر استعمال ہونی والی چیز نے ایک نہ ایک دن ناقابلِ استعمال ہونا ہوتا ہے۔ یہ وہ عالمگیر مضمون ہے جو قدرت خود اپنے ہاتھوں سے لکھتی ہے۔

‏‎کالم نگار: راؤ کامران علی، ایم ڈی
ہر بدھ وار کو کالم لکھا جاتا ہے۔ اگر پسند آئے تو شئیر کریں۔ مزید کالم پڑھنے کے لئے اس پیج Tez Hay Nok e Qalam کو like کریں شُکریہ

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *