خوف اور نفرت دنیا کے سب سے بڑے ہتھیار ہیں۔ پاکستان کے آدھے سے زیادہ کامیاب لوگ ریڑھی لگا رہے ہوتے اگر بچپن میں ابا جان یا ٹیچر کے ڈنڈے کا “خوف” نہ ہوتا۔ بقول شاعر خالد مسعود
لُچّے کو سمجھایا پیار سے صفر نتیجہ نکلا “
”ہم نے یہ آزمایا سوٹا سوٹا ہی ہوتا ہے
اسی طرح کتنے ہی لوگ وہ کام محبت یا شفقت سے نہیں کرسکتے جو کسی کی نفرت یا دُشمنی میں کر جاتے ہیں۔ کیونکہ نفرت کا جذبہ وجود میں بےپناہ توانائی بھر دیتا ہے گو کہ یہ توانائی منفی اور عارضی ہوتی ہے۔
بدقسمتی سے گزشتہ سولہ سالوں میں امریکہ نے خوف اور نفرت کے یہ دونوں ہتھیار مسلمانوں کے خلاف بے دردی سے استعمال کیے ہیں۔ نائن الیون کے واقعہ کے بعد مزید دہشتگردی کا “خوف” پھیلا کر افغانستان سے لیکر عراق اور لیبیا سے لیکر شام تک کو تہس نہس کردیا گیا۔ پاکستان کو “زبردستی” ساتھی بنا کر پاکستانی معیشت کو تباہ کردیا گیا۔ اور اب مشہورِ زمانہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ دوسرے خطرناک ہتھیار یعنی “نفرت” کا بے دریغ استعمال کررہا ہے۔ پچھلے سال الیکشن میں ٹرمپ کا زور جھوٹے وعدوں، فریب کی جنت کے ساتھ ساتھ اسلام مخالف بیانیہ پر تھا۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ یہ بیانیہ ہاتھوں ہاتھ بِک گیا۔ نسل پرست گورے جنونی بن گئے۔ لاکھوں ایسے تھے جنھوں نے پہلی کبھی ووٹ نہیں دیا تھا لیکن نفرت کی آگ انھیں پولنگ اسٹیشن تک لے گئ اور نتیجہ آپکے سامنے ہے۔ نفرت پھیلانے والے یہ بات بھول جاتے ہیں کہ نفرت اس بدمست ہاتھی کی طرح ہوتی ہے جو بے قابو ہوکراپنی فوج کو بھی روند دیتے ہیں۔ امریکہ کے ایما پر “افغان جہاد” کے لئے تیار کردہ اور پھر ممکنہ “کشمیر جہاد” کے لیے سنبھال کر رکھے گئے دہشتگرد جب بدمست ہوئے تو پاکستان کو ہی تباہ کرنے کے درپے ہوگئے۔ الیکشن کے دنوں میں ٹرمپ نے انڈیا کو دوست کہا تو انڈین امریکن اسکے گُن گانے لگے۔ لیکن جب بھارتی ہندوؤں کو مسلمان سمجھ کر امریکہ میں مارا گیا تو نفرت کی رمز انکی سمجھ میں بھی آنے لگ گئ۔
گزشتہ ہفتے کو ورجینیا کے شہر شارلٹسول میں نسل پرست گوروں نے اسلحہ سے لیس ہو کر جلوس نکالا۔ انکے نعرے تھے کہ یہودیوں کی امریکہ میں کوئی جگہ نہیں اور وہ اس جلوس میں اپنے آپ کو ہٹلر کے پیروکار ظاہر کررہے تھے۔ وہی ہٹلر جس نے لاکھوں یہودیوں کو زندہ جلایا اور جس کے خلاف جنگ میں امریکی فوجیوں نے جان دی تھی۔ “بلڈ اینڈ سوائل”؛ یعنی “ہماری مٹی پر ہماری نسل کا حق”، جو کہ نازی جرمنوں کا محبوب نعرہ تھا، کی صدائیں ورجینیا میں گونج رہی تھیں۔ کچھ لوگوں نے اس نفرت آمیز نسل پرستی کے خلاف پُرامن مظاہرہ کیا تو انھی نسل پرستوں میں سے ایک نے ان پر گاڑی چڑھا دی جس سے ایک جوان خاتون ہلاک اور متعدد زخمی ہوگئے۔ ٹرمپ نے محض صدارتی الیکشن جیتنے کے لئے جو نفرت کی آگ پھیلائی، وہ آگ بے قابو ہوکر اب “کنفیڈریشن” کو جلانے کے درپے ہے اور نفرت سے بھرے گورے کنفیڈریشن کی علامت جنرل رابرٹ لی کا مجسمہ گرانا چاہتے تھے۔ مزے کی بات ہے کہ اتنے گھناؤنے لوگوں کے گروپ کو بھی ڈونلڈ ٹرمپ نے “کچھ اچھے”، “کچھ بُرے” کہہ کر “اچھے طالبان” اور “بُرے طالبان” والی کہانی دہرائی ہے جو کہ زخموں پر نمک چھڑکنے کے مترادف ہے۔ مزید برآں صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے دونوں گروپوں کو برابر ذمہ دار قرار دے دیا جس سے پورے امریکہ میں ایک آگ سی بھڑک گئ۔ ریپبلکن پارٹی کے اپنے سینیٹرز اور کانگریس مین اس بیان پر بے حد رنجیدہ نظر آئے۔ اوہائیو کے ریپبلکن گورنر جان کیسک نے بیان دیا کہ “صدارت، امریکہ کا سب سے اہم عہدہ ہے لیکن اسکے باعث جو تلخیاں پیدا ہو رہی ہیں وہ کبھی دور نہیں ہونگی”۔ معروف کامیڈین جمی کیمل نے اپنے مخصوص مزاحیہ انداز میں ڈونلڈ ٹرمپ کا “بینڈ بجانے”کے بعد بے حد سنجیدگی سے کہا کہ “بس اب حد ہوگئ ہے”۔
کہتے ہیں کہ بُرائی میں بھی اچھائی پوشیدہ ہوسکتی ہے۔ ایک خاص تھنک ٹینک نے مسلمانوں کے خلاف جو نفرت انگیز بیانیہ پوری دنیا میں پھیلایا وہ اب دیگر قوموں کو لپیٹ میں لے چُکا ہے اور اُسکی زد سے اب کوئی بھی محفوظ نہیں۔ مسلمانوں کے ساتھ ساتھ ہندو، سکھ، سیاہ فام اور یہودی، کم از کم امریکہ میں یہ جان چُکے ہیں کہ اگر ایک مذہب یا نسل کی تباہی ہوئی تو پھر دوسرے اور تیسرے کا نمبر آئے گا۔ یہ بیانیہ مسلمانوں کے لئے اسلئے اتنا اہم ہے کہ اب دہشتگردی کے واقعات میں شدت پسندوں کا ذکر ہوگا، نہ کہ ہر مسلمان کو شدت پسند قرار دے دیا جائیگا۔ امریکی کانگریس نے اس سلسلے میں ایک قرارداد H. Res. 257 پاس کی ہے جسے اکثریتی حمایت حاصل ہے کہ کسی بھی اقلیت کے خلاف کوئی بھی نسلی امتیاز یا نفرت پر مبنی جرم (ہیٹ کرائم) کے خلاف سخت کاروائی ہوگی۔ پاکستان کے امریکہ سے دوبارہ بہترین تعلقات کی راہ بھی نئے بین الاقوامی بیانیے سے ہموار ہوسکتی ہے کیونکہ عرصہ دراز سے پاکستان مذہب، رنگ اور نسل سے بالاتر ہوکر، اپنے ہی ہم مذہب دہشتگردوں کا قلع قمع کرنے میں اپنے سارے وسائل جھونک رہا ہے۔ سفید فام شدت پسندوں کی دہشتگردی کے بعد دنیا کا نیا بیانیہ ہوگا، “کیا آپ (کسی بھی مذہب کے، صرف مسلمان نہیں ) شدت پسندوں کے ساتھ ہیں یا انکے خلاف جنگ میں ساتھ ہیں”!!!!!
پسِ تحریر! افغانستان میں فوجیں بھیجنے یا پاکستان کو دھمکی لگانے سے کچھ نہیں ہوگا۔ اپنی منجی تھلے ڈانگ پھیرنا ہی پڑے گا۔