یہ سولہ اکتوبر کا اخبار ہے اور اس میں دو چوبیس پچیس سالہ خوبرو جوانوں کی تصاویر ہیں جو اس جہانِ فانی سے رخصت ہوگئے ہیں۔ ان میں سے ایک کیپٹن حسنین خان ہے جو مُلک دُشمنوں سے بہادری سے لڑتا ہوا اپنی جان مادرِ وطن پر نچھاور کرگیا۔ کسی نے وٹس ایپ پر اس نوجوان کی اپنے چند ماہ کے بیٹے اور نو عمر بیوی کے ساتھ تصویر بھیجی اور دل کُٹ کر رہ گیا۔ سڑک پر گاڑی چلاتے، ہمارے سامنے ٹرک آجائے تو یکدم اپنے بچے یاد آجاتے ہیں اور جب یہ جوان آتشِ عشق میں کُود رہا ہوگا تو کیسے مُلک کے لئے سب کچھ فراموش کر دیا ہوگا۔ دُنیا کا کوئی تمغہ کوئی ستائش اس شہید کے مُلک و قوم پر احسان کا بدلہ نہیں دے سکتی۔دوسری تصویر اعزاز احمد کی ہے جو کہ مکینیکل انجنیئر تھا اور ایک سال تک بیروزگار رہنے کے بعد اس نے خودکشی کر لی۔ جان اس نے بھی دی لیکن کیپٹن حسنین کے برعکس یہ سراسر بُزدلی ہے۔ معاف کیجئے گا کہ مرنے والے کو بُرا نہیں کہتے لیکن یہ ضروری ہے تاکہ اگر کوئی اور مستقبل میں مسائل سے فرار کی راہ اپناتا ہوا ایسی بُزدلی دکھانے کا سوچے تو جان لے کہ مرنے کے بعد ہمدردی نہیں لعنت ملامت ملے گی۔
گزشتہ ہفتے کے کالم میں ڈیمانڈ اور سپلائی میں بھیانک عدمِ توازن اور نوکریوں کی قلت کا ذکر کیا گیا تھا، بدقسمتی سے یہ کسی ایک شعبے تک محدود نہیں رہ گیا ہے۔ ہر پروفیشنل انسٹیٹیوٹ کی گورننگ باڈی میں کرپٹ بلیوں کو دودھ کی رکھوالی پر بٹھا کر اس توازن کا بیڑہ غرق کیا گیا۔ لگ بھگ پندرہ سال پہلے تک جب انجنیئرنگ کی تعلیم، پنجاب میں صرف یو ای ٹی لاہور اور ٹیکسلا میں ہوتی تھی، کیا کبھی کسی نے دیکھا تھا کہ یہ ہیروں جیسے انجنئیر بیروزگار ہوں؟ اور اب !!! پاکستان کی میڈیکل کی تعلیم امریکہ سے آئرلینڈ تک سراہی جاتی تھی اور جب ایک قابلِ کراہیت ڈاکٹر اور مہاکرپٹ کا بہوبلی، پی ایم ڈی سی کا چیئرمین بنا تو گلی گلی میں “شبنم میڈیکل کالج” اور “جُگنو میڈیکل کالج”، پانچ پانچ مرلے کی بلڈنگوں میں کھڑے ہوگئے۔جنھیں بی ایس سی میں بھی داخلہ نہیں ملنا چاہئے انھیں لوگوں کو مارنے کا لائسنس دیا جارہا ہے۔چند دن پہلے “بہوبلی” کا انٹرویو آیا کہ میں جیل چلا گیا لیکن میں نے “مہاگرو” سے غداری نہیں کی”، کاش کہ اُسکے ایسے ہی جذبات مُلک اور اسکے لوگوں کے بارے میں بھی ہوتے۔
سی پیک پر خوش ہونا اور مستقبل کو روشن سمجھنا بہت اچھی بات ہے لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ دھڑادھڑ بننے والے ڈاکٹر، انجنئیر، اور باقی شعبوں کے لوگ کہاں جائیں گے۔ پوری دنیا میں پاکستانیوں پر راستے بند ہو رہے ہیں اور پاکستان میں نوکریوں کے نئے رستے کھولنے کی سوچ کسی کی نہیں تو کیا ہم آگے خودکشیوں کے راستے کھول رہے ہیں؟ یہ لاتعلقی صرف ان شعبوں تک نہیں، ہر معاملہ زندگی میں ہے۔ تاجروں پر بھی بُرا وقت لایا جارہا ہے۔ مئ 2017 میں اس وقت کے وزیرِ تجارت خُرم دستگیر نے “علی بابا” کمپنی کے صدر مائیکل ایونز کے ساتھ ایک تجارتی معاہدہ دستخط کیا جس کی رو سے “علی بابا” پاکستان میں کام کرے گی۔ اب چھوٹے تاجروں کو پتا تک نہیں کہ یہ “علی بابا” کیا بلاُ ہے۔ یوں سمجھ لیں کہ جو تاجر گلگت سے چین کی بنی گھڑیاں دس ہزار روپے کلو لا کر ایک ایک گھڑی ہزار ہزار میں بیچتا ہے وہی گھڑی “علی بابا” پر آن لائن سو روپے میں مل جائے گی۔ اسی طریقے سے “علی بابا” سے ملتے جُلتے “ایمازون” نے امریکہ میں بڑے بڑے شاپنگ سنٹر بند کروا دئیے ہیں تو دیکھیں پاکستان میں “علی بابا” کیا تباہی مچائے گا۔ خرم دستگیر سے اتنی امید نہیں کہ وہ اس بات کو یقینی بنائے کہ “علی بابا” کے پاکستانی گوداموں میں مال پاکستان کا تیارکردہ آئے، ناں کہ چین کا۔
مشینوں کی بڑھتی ہوئی افادیت اور روبوٹ کی کارکردگی کے باعث پوری دنیا میں بے انتہا بیروزگاری بڑھنے کا اندیشہ ہے۔ دورِ حاضر کے آئن اسٹائن، سٹیفن ہاکنگ نے ایک حالیہ مضمون میں اسکا خدشہ ظاہر کیا ہے۔ امریکہ میں ڈونلڈ ٹرمپ نے سادہ امریکیوں کو بیوقوف بنایا کہ “بیرونِ مُلک سے آنے والے تمھاری نوکریاں لے گئے، مجھے صدر بناؤ تاکہ انھیں نکال کر تمھیں نوکریاں دلواؤں”؛ آٹو انڈسٹری کے حالیہ اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ سن 2000 سے 2016 کے درمیان آٹو انڈسٹری کی پچاس لاکھ میں سے بیالیس لاکھ نوکریاں انسانوں کی جگہ کمپیوٹر اور روبوٹ نے لے لی ہیں۔ قوی امکان ہے کہ یہ بیالیس لاکھ بےروزگار “فارنرز” کے غصہ میں ووٹ ٹرمپ کو دے گئے۔ یاد رہے کہ پاکستانیوں کی بڑی تعداد بیرونِ مُلک مزدوری کا کام کرتی ہے خصوصاً مشرقِِ وسطیٰ اور خلیجی مُمالک میں؛ مثلاً ٹیکسی چلانا یا عمارتیں بنانے میں مزدور کا کام۔ اسی دسمبر یعنی دو مہینے کے بعد ابوظہبی میں ڈرائیور کے بغیر “سیلف ڈرائیونگ” ٹیکسی سروس شروع ہوجائے گی۔ تھری ڈی پرنٹرز نے گھر بنانے شروع کردئیے ہیں تو آپ بتائیں یہ مزدور اگلے دس سال کے بعد کیا کریں گے؟ اگر پاکستان واپس آگئے تو بیروزگاری تو بڑھے گی ہی، انکے مال سے پھلتی پھولتی پاکستانی رئیل اسٹیٹ کی بھی عقل ٹھکانے آجائے گی۔
نئے دور کی تیاری نئے طریقے سے کرنے کی ضرورت ہے۔ بچوں کو ڈاکٹر انجنئیر بننے کا پریشر ترک کرکے انکی پسند کے شعبوں میں حوصلہ افزائی کریں۔ ہمیں “ایلان مسک” کی ضرورت ہے، “جیک ما” کی ضرورت ہے، “اسٹیو جابز” کی ضرورت ہے اور یہ موجود ہیں بس انکی حوصلہ افزائی کی ضرورت ہے۔ سترہ سولہ شہیر نیازی اس امید کو یقین میں بدلنے کا استعارہ ہے۔ ہمارے امیر سیاستدانوں کے جوان بچوں کو چاہیے کہ اتنے پڑھے لکھے ہوکر مرغی، دودھ کا کام چھوٹے تاجروں کے لئے چھوڑ کر کمرشل لیب اور انکوبیٹرز بنائیں جہاں نوجوان نئی ایجادات بنائیں۔ صرف ایک وٹس ایپ جو دو ہزار ارب روپے میں فروخت ہوئی جیسی کوئی چیز بن جائے تو مُلک کا بھلا، نوجوانوں کا بھلا اور ان کا خود کا اتنا بھلا کہ قطری ان سے خط مانگنے آئیں گے۔ آخر میں سب سے اہم بات، چینی زبان سیکھیں۔ یہ آنے والی سُپر پاور کی زبان ہے، امریکہ تک میں آجکل اسکولوں میں بچوں کو “سیکنڈ لینگویج” ہسپانوی یا فرانسیسی کی بجائے چینی زبان سکھا رہے ہیں اور ہمیں تو بہت پہلے حدیث میں علم حاصل کرنے کے لئے چین جانے کا ذکر کرکے اشارہ دے دیا گیا ہے۔ جب ہمسائے میں اتنی بڑی معاشی طاقت ہو جہاں آپ موٹر سائیکل پر بیٹھ کر بھی جاسکتے ہوں اور وہ آپکے مُلک میں اتنا بڑا معاشی منصوبہ تیارکررہی ہو تو انکی زبان سیکھ کر نوکریاں ہی نوکریاں، ہر شعبے میں۔ قسمت یہ موقع کیچ کروا رہی ہے، ذرا ہمت کرکے “ڈائی ماریں” اور موقع کو ہاتھوں سے کیچ کرکے سینے سے لگا لیں۔
کالم نگار: راؤ کامران علی، ایم ڈی
ہر بدھ وار کو کالم لکھا جاتا ہے۔ اگر پسند آئے تو شئیر کریں۔ مزید کالم پڑھنے کے لئے اس پیج Tez Hay Nok e Qalam کو like کریں شُکریہ