آج “تیز ہے نوکِ قلم” کو شروع کیے ایک سال مکمل ہوا۔ ایک سال میں غالباً 54 کالم لکھے گئے، پچیس ہزار کے قریب لوگ پیج کو فالو کرتے ہیں اور ڈھائی لاکھ سے زائد بار کالموں کو لائک کیا گیا؛ کچھ ٹیکسٹوں کا جواب دے سکا اور بہت سوں کا نہیں تو اسکے لیے معذرت۔ فل ٹائم میڈیکل پریکٹس، پارٹ ٹائم بزنس، “وینچر کیپیٹیلزم”، سماجی ذمہ داریوں اور سیاسی سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ ہر ہفتے کالم لکھنا اور اسکے لئے تیاری قدرے مشکل کام تھا لیکن جیسے تیسے ہو ہی گیا۔ جنگ اور دیگر اخبارات بھی وہ کالم اس پیج میں سے چھاپتے رہے جو اخبارات کی پالیسیوں پر پورا اترتے تھے اور کالم محض اخبارات میں چھپوانے کے لیے لکھا جائے تو پھر نوکِ قلم تیز نہیں رہتی بلکہ ٹیڑھی ہوکر مثلِ کشکول بن جاتی ہے اس لیے ہر کالم اخبار کی زینت اس وقت تک نہیں بن سکتا جب تک اخبارات اپنی پالیسیاں نرم نہ کرلیں۔
چودہ پندرہ سال کی عمر سے کالم پڑھنے شروع کیے اور پڑھتے سیکھتے اب چوتھائ صدی آنے کو آئی۔ ایم بی بی ایس کے بعد خود کی مزید کیرئیر کونسلنگ کے لیے سٹیفن آر کوری، جم رون، برائنُ ٹریسی اور ڈیل کارنیگی کو پڑھنا شروع کیا تو پتا چلا کہ اُن دنوں ایک ابھرتے کالم نگار ان مصنفوں کی تحریروں کا ترجمہ کرکے، ساتھ دیسی تڑکا لگا کر کالم لکھتے تھے؛ جیسے پیزے کے اوپر چاٹ مصالحہ ڈال کر کھانا۔ لیکن بہرحال ان کالم نگار کا اندازِ بیاں بے حد اثر انگیز تھا اور ہے۔ بعد میں وہ رئیل اسٹیٹ ٹائیکون اور ن لیگ کے ہتھے چڑھ گئے اور آجکل ن لیگ، زرداری اور عمران خان کو ایک برابر ثابت کرنے پر ایسے تُلے ہیں جیسے کسی دیہاتی کے گھر ڈاکو آجائیں اور وہ انھیں پکڑ کر پنچایت میں لے جائے؛ سرپنچ ڈاکوؤں کا ساتھی ہو مگر انھیں بے گُناہ ثابت نہ کر سکتا ہو تو دیہاتی کو مخاطب ہو کر کہے کہ “تم نے بھی بچپن میں باغ سے آم چُرائے تھے تو “ٹیکنیکلی” تم میں اور ڈاکوؤں میں کوئی فرق نہیں”۔
پھر کچھ ریٹائرڈ بیوروکریٹس کے کالم پڑھے جن کے سینوں میں رازوں کا خزانہ ہوتا ہے لیکن نوجوان نسل کی رہنمائی کی بجائے انکے زیادہ تر کالم یا تو اپنی ایمانداری کی گواہیوں سے لبریز ہوتے ہیں یا پھر حسین نواز کے باوضو ہونے کی گواہی دینے والے کالم نگار کی طرح “بابوں” اور روحانیت سے بھرے ہوتے ہیں۔ مسئلہ بابوں کے سچے یا جھوٹے ہونے کا نہیں ہے مسئلہ عوام کا ہے۔ جس مُلک کے ہر گھر میں اوسطً کم ازکم ایک شخص تعویز دھاگوں اور بابوں ہر یقین رکھتا ہو اور پچاس فیصد کے قریب لوگ چوری ہونے کے بعد پولیس سے زیادہ “لوٹا گھما کر چور کا پتا بتانے والے” جادوگر پر یقین رکھتے ہوں وہاں بابوں کے قصے بِک تو دھڑادھڑ جاتے ہیں لیکن اس سے قوم مزید ذہنی پسماندگی کا شکار ہو جاتی ہے۔ افسوس کی بات ہے کہ مجھے آج تک کوئی ایسا بابا نہیں ملا جو تیلی توڑ کر دانتوں میں خلال کرتا آگہی و معرفت کی اوجِ ثریا تک پہنچا دے۔ ہمارے بابے تو یا تو لمبی لمبی چھوڑتے تھے کہ پورے گاؤں کی مٹیاریں ان پر مرتی تھیں یا اپنی جنسی قوت کے ایسے قصے سُناتے تھے کہ اچھا خاصا صحتمند نوجوان مرعوب ہوکر حکیم سے کنسلٹ کرنے پہنچ جائے یا پھر جسمانی طاقت کے واقعات کچھ یوں بیان کرتے تھے کہ اپنی جوانی میں وہ دو دو من گندم کی بوری ہوا میں اچھال کر کیچ کیچ کھیلتے تھے۔ پتا نہیں مزکورہ بالا کالم نگار اپنے پاس سے بابے تخلیق کرلیتے ہیں یا یہ اتنے نیک ہیں کہ نیک بابے انھیں ملتے ہیں اور ہم جیسے گناہگاروں کو نہیں!
بہت سے کالم نگار بے حد اثر انگیز ہیں اور بہت سے نہیں ہیں۔ بہت سے سچ کا ساتھ دیتے ہیں اور بہت سے حکومت کا۔ بہت سوں کی یہ روزی روٹی ہے اور وہ اخبارات کی پالیسیوں سے تجاوز نہیں کرسکتے جب کہ بہت سے شوقیہ لکھتے ہیں۔ بدلتی دنیا کے ساتھ کالم اب محض کالم نہیں رہ گیا۔ یہ سیکھنے سکھانے کا باقاعدہ ذریعہ بن گیا ہے۔ کالم نگاری کی مختلف قسموں میں کھیل، سماجی موضوعات، سیاست، مزاح اور رہنما (لیڈر شپ) کالم نگاری شامل ہے۔ گو کہ پاکستان میں سارے موضوعات اہمیت کے حامل ہیں کیونکہ ہر شعبے میں تبدیلی آرہی ہے یا پھر لانے کی ضرورت ہے لیکن دنیا کے گلوبل ویلیج بننے کے بعد تیزی سے بدلتی ٹیکنالوجی اور گلوبلائزیشن کے باعث “لیڈرشپ کالم نگاری” سب سے اہم ہے۔ ہر شعبے سے ایکسپرٹس کو لکھنا چاہئے خواہ مہینے میں ایک بار ہی کیوں نہ ہو۔ ایک اچھا وکیل چاہے تو ایک سال میں ہر قاری کو بنیادی مسائل مثلاً رشوت اور ہراسیت سے بچنے اور قانونی جنگ لڑنے کی تربیت دے سکتا ہے۔ ایک کامیاب بزنس مین کاروبار اور سائنسدان نئی ایجادات کی جانب راغب کرسکتا ہے۔ زیادہ امکان ہے کہ جو کالم نگار نوکری، کمائی یا کسی اور فائدے کے لئے نہیں لکھ رہا ہے، حساس موضوعات پر بھی بیباک رائے دے پائے گا۔ اچھے یا بُرے کالم نگار کی پہچان ایسے کر سکتے ہیں کہ جو بھی غیر عملی باتیں کرتا ہے اور انسانوں کی ناکامیوں کا ذمہ دار حکومت، معاشرے یا حالات کو ٹھہراتا ہے، وہ میرے نزدیک پڑھے جانے کے لائق نہیں لیکن جو کالم نگار آپ کو اپنی کامیابی ناکامی کی ذمہ داری خود لینے کی تلقین کرتا ہے؛ اچھے بُرے حالات میں مستقل مزاجی سے، بیدار مغزی سے کامیابی کی جستجو پر اکساتا ہے، بہترین کالم نگار ہے۔ اُمید ہے کہ “تیز ہے نوکِ قلم” اپنا کردار بطریقِ احسن نبھاتا رہے گا، آپکی مدد اور دعاؤں کی ہمیشہ کی طرح ضرورت رہے گی۔ دعا ہے کہ آپ ہمیشہ خوش و خرم اور خیروعافیت سے رہیں! آمین
کالم نگار: راؤ کامران علی، ایم ڈی
ہر بدھ وار کو کالم لکھا جاتا ہے۔ اگر پسند آئے تو شئیر کریں۔ مزید کالم پڑھنے کے لئے اس پیج Tez Hay Nok e Qalam کو like کریں شُکریہ