زندگی اور موت الّلہ کے ہاتھ میں ہے۔ الّلہ سب کے بچوں کی زندگی رکھے اور انھیں محفوظ رکھے تاہم ہم ایسے لوگوں کو جانتے ہوں گے جن کے چھوٹے بچے کسی حادثے یا بیماری کی وجہ سے وفات پا جاتے ہیں؛ یہ دُکھ، دل تو چیر جاتا ہے لیکن وقت کے ساتھ صبر آجاتا ہے۔ لیکن جب آپ ایک آٹھ سالہ بچی کو سی سی ٹی وی پر ننھے ننھے پاؤں اٹھاتی ایک چھ فٹے آدمی کے ساتھ جاتے دیکھتے ہیں جس نے شاید کہا ہو، زینب تمھارے ابو نے مجھے بھیجا ہے تمھیں لینے” یا “آؤ تمھیں آئس کریم کھلا کر لاؤں” اور پھر جب اس ذلیل انسان نے اپنا غلیظ کھیل شروع کیا ہوگا تو بچی نے کیسے چیخیں مارتے ہوئے کہا ہوگا “انکل مجھے چھوڑ دیں” اور پھر ایسا چار دن تک ہوتا رہا ہوگا جب تک بچی اذیت کی شدت سے مر نہیں گئی ہوگی۔ اب کوئی بتائے کہ کوئی بھی انسان، کوئی بھی بچوں کا باپ اسے کیسے بھول جائے؟ اگلا سوال یہ کہ زینب ہی کیوں، پہلےایسی گیارہ بے قصوروں کو شہر قصور کھا گیا اور اخبار میں صرف دو لائنوں کی خبر لگی، شُکر ہے کہ زینب معصوم کے صدقے ان معصوم جانوں کے لیے بھی انصاف کے دروازے کھلے اور شاید پورے پاکستان میں جو کہرام مچا ہے اسکے باعث مستقبل میں بہت سی زینبں بچ جائیں۔
آر پی او شیخو پورہ نے بڑے مطمئن انداز میں ارشاد فرما دیا کہ پانچ بچیوں کے ریپ کا ڈی این اے ایک ہے، تو سرکار آپ کیا خدانخواستہ ریپ کی سنچری کا انتظار کر رہے تھے؟ کیا رپورٹ ہے پچھلے کیسسز کی؟ کیا اقدامات کیے گئے ایک سے دو اور پھر گیارہ سے بارہواں ریپ روکنے کے لیے؟ کون سی سیکیورٹی ایجنسیوں سے مدد لی گئی؟ ترقی یافتہ ممالک میں ایسے “سیریل کیس” پولیس سے ایف بی آئی یا انٹیلی جنس بیورو کو منتقل ہوُجاتے ہیں، آپ نے کیوں نہیں کیا؟کیا بچوں کو اس مسئلے پر تعلیم دینی شروع کی گئی؟ کیا پبلک آگاہی کا انتظام کیا گیا؟ جی نہیں!!! صاف سی بات ہے کہ پولیس افسران، آرمی افسران، ججوں اور سول بیوروکریسی کے اپنے بچے ایسے قلعوں میں رہتے ہیں جہاں کوئی انھیں اغوا یا ریپ نہیں کرسکتا۔ اگر حکمرانوں کی خوشامد کرنے والا کوئی صحافی امریکہ آئے تو اسے دکھاؤں گا کہ یہ پولیس شیرف (ایس پی) کا گھر ہے جس کے ساتھ والا گھر ایک مالی کا ہے اور یہ جج کا گھر ہے جو کہ اسی محلے میں ہے جہاں حکومتی مالی امداد سے پلنے والے خطِ غربت کے نیچے لوگ رہتے ہیں۔ انھیں پتا ہے کہ اگر آج کوئی درندہ صفت انسان پڑوسی کا بچہ اٹھائے گا تو کل انکے بچوں کی باری آئے گی اسلیے وہ آفیسر اس علاقے کے بچوں کی دل سے حفاظت کرے گا۔
دنیا میں بڑے سے بڑا مسئلہ حل کرنے کے لئے پہلے اسے جاننا ضروری ہے۔ اس ملک کا مسئلہ یہ ہے کہ موجودہ نظام، حکومت کرنے کے لیے نہیں بلکہ انگریزوں نے قبضہ چلانے کے لیے بنایا تھا۔ راجہ مہاراجہ انگریزوں کی پراکسی سیاست کرتے تھے اور مقامی بیوروکریسی انتظام چلاتی تھی، دونوں ایکدوسرے کے “کانے” تھے، سو آج بھی ہیں۔ آج زینب کے غم اور اشتعال کو کم کرنے کی ناکام کوشش میں جس ڈی پی او کو او ایس ڈی بنایا گیا ہے، تین مہینے کے اندر شہباز شریف ہی اسے کسی منافع بخش پوسٹ پر لگائے گا۔ اور اگر کوئی شک ہے تو آج ہی ماڈل ٹاؤن کے معصوموں کے قاتلوں کے رتبے دیکھ لیں۔ یہ ہے ملک پر قبضہ چلانے کے نظام کی رمز! ڈرامے باز وزیراعلیٰ “پانچویں ڈی این اے” اور بارہویں بچی کے ریپ اور قتل کے بعد اب پہنچا ہے کیونکہ ٹی وی اور کیمرے بھی پہنچ گئے ہیں تو سرکار کا شاٹ تو بنتا ہی ہے۔ آپ پچھلے گیارہ ریپ اور قتال پر کچھ نہ کرسکے تو حق تو یہ ہے کہ وزیراعلیٰ کو ہی معطل کر دیا جائے۔
چار دن تک بچی تڑپتی رہی اور پولیس کچھ نہ کرسکی۔ اور اگر کوئی مجرم پکڑا جائے تو ہمارا نظامِ عدل ثبوتوں کی عدم موجودگی پر بری کر دیتا ہے، یعنی اگر مجرم نے “کنڈم” پہنا ہو تو ناں ڈی این اے، ناں ثبوت، ناں گواہ، اب معصوم قبر سے نکل کر تو بتا نہیں سکتا؛ یا پھر کیس اتنا لمبا چلتا ہے کہ مظلوم اپنی پھٹی عزت کو عدالتوں میں گھسیٹ کر تھک ہار جاتا ہے۔ رہی بات کہ280 بچوں کے سیکس اسکینڈل سے لیکر ریپ تک، ضلع قصور میں ہی کیوں ہو رہا ہے تو یہ وہ ضلع ہے جہاں سارے منتخب سیاستدان حکمران جماعت کے ہیں، ڈی پی او سے لیکر سپاہی تک انکی مرضی کے لگتے ہیں اور بارڈر پار اسمگلنگ سے لیکر بدمعاشی تک کو “پروٹیکشن” دیتے ہیں، عوام پر سیدھی فائرنگ اسلیے سفاکی سے کر دیتے ہیں کیونکہ یہ مافیا انھیں بچا لیتا ہے۔
دُکھ سے بڑا کوئی دوست نہیں۔ خوشی مختلف ہوسکتی ہے لیکن دُکھ سب کا ایک جیسا ہی ہوتا ہے۔ جیسے بچی کے ماں باپ تڑپ رہے ہیں ویسے ہی پورا شہر پورا ملک اور دس بارہ ہزار میل دور بیٹھے ہم جیسے پاکستانی تڑپ رہے ہیں۔ ایک ڈر ایک ،خوف ،ایک دہشت ہڈیوں میں سرایت کرگئی ہے کہ ہمارے بھی بچے محفوظ ہیں کہ نہیں!۔ یہ قوم کا مشترکہ درد ہی سیلاب کی طرح اس نظام کو بہا کر لے جائے گا جو چند لوگوں کی دولت، چند لوگوں کی بدمعاشی، چند لوگوں کی افسری کے لیے بنا ہے۔ آئندہ بریانی کے لیے ووٹ ڈالتے وقت چاولوں کو ٹٹول کر دیکھنا شاید کسی معصوم کی نچڑی لاش کی بوٹی نظر آجائے اور نظر آجائے تو بریانی کو وہیں پھینک کر بہترین انسان کو ووٹ دینا چاہے اسکا تعلق کسی بھی جماعت سے ہو۔ ہم نے اپنی زینبوں کو خود بچانا ہے اور یہ تب ہی ہوگا جب ہم ہر زخم کو گن کر رکھ لیں تاکہ حساب لیتے وقت کوئی چُوک نہ ہو۔
کالم نگار: راؤ کامران علی، ایم ڈی
ہر بدھ وار کو کالم لکھا جاتا ہے۔ اگر پسند آئے تو شئیر کریں۔ مزید کالم پڑھنے کے لئے اس پیج Tez Hay Nok e Qalam کو like کریں شُکریہ