“میں کیا تمھارے مانگنے پراستعفیٰ دے دوں گا؟یہ مُنہ اور مسور کی دال” سے لیکر “مجھے کیوں نکالا۔۔۔۔ بیک گراؤنڈ میوزک میں سسکیاں”
ماڈل ٹاؤن کیس میں آرمی چیف نے وزیراعلیٰ پنجاب کی استعفے کی یقین دہانی کروا دی اگر دھرنا ختم کر دیا جائے۔
گیارہ بچیوں کے ریپ اور قتل کی پرواہ نہ کرنے والے پولیس افسران بارہویں قتل پر معطل، دو ہفتے میں مجرم گرفتار
زرداری کا کرائے کا قاتل ایس ایس پی انوار احمد خان قانون کی گرفت میں
عمران خان کی شادیوں کی نوٹنکی سے امیج کا متاثر ہونا
یہ ہے پاک سر زمین میں حال ہی میں ہونے والی چند بڑی تبدیلیوں کا سرسری جائزہ۔ اگر پی ٹی وی کو نیوٹرل بھی بنا دیا جاتا، پاکستان کے سارے پرائیویٹ ٹی وی بھی خرید لیے جاتے، صفِ اوّل کے تجزیہ کار بھی ایڑی چوٹی کا زور لگا لیتے تو بھی کچھ نہ ہو سکتا لیکن آپ کے اور میرے جیسے “ساجھے ماجھے” کی آواز اور جذبات سوشل میڈیا پر یکجا ہوئے تو یہ سب ممکن ہوگیا۔ پہلے بھی ظلم کے شکار سینکڑوں بچیاں اور بچے رپورٹ ہوئے تھے، محض ایک یا دو کالمی خبر میں لیکن جب سوشل میڈیا پر پہلی بار یہ ظلم سی سی ٹی وی پر“لائیو” دیکھا گیا تو وہ کہرام مچا کہ دس ہزار مانگنے والا ڈی پی او تو گیا ہی “ڈرامہ اعلیٰ”کو بھی رات کے اندھیرے میں چھپ کر آنا پڑا اور سوشل میڈیا کی گونج ایک دُکھی باپ کی صدا چیف جسٹس اور آرمی چیف تک لے گئی۔ سوشل میڈیا نے یہ بھی دکھایا کہ ظلم کا شکار بچیاں اور بچے ایم پی اے ملک احمد خان کے شہر کے ہیں جس کی اب ڈرامہ بازی ختم نہیں ہو رہی جبکہ پہلے گیارہ بچیوں کی کہانی سوشل میڈیا پر نہ آئی تو ڈرامہ بازی کی ضرورت بھی محسوس نہ ہوئی۔ سوشل میڈیا نے یہ بھی دکھایا کہ پورے قصور کی ضلع کونسل سے لیکر پانچ کی پانچ ایم این اے کی سیٹیں اور اسپیکر پنجاب اسمبلی قصور سے ہونے کے باوجود ایک دُکھی باپ کو اس جمہوریت (یعنی بہترین انتقام) پر اتنا “اعتماد “ہے کہ وہ “غیر جمہوری اداروں” سے مدد مانگ رہا ہے۔ اور سوشل میڈیا نے یہ بھی دکھایا کہ گیارہ بچیوں اور دو سو پچاس بچوں کو بھولنے والے حکمران سوشل میڈیا پر عوام کے غیض و غضب اور چیفس کے نوٹس کے بعد فوج کی مدد سے محض ایک مجرم کو پکڑنے پر دُکھی باپ کی موجودگی میں تالیاں بجا رہے ہیں، قہقہے لگا رہے ہیں، مبارکبادیں دے رہے ہیں۔ سوشل میڈیا نے یہ بھی ثابت کیا کہ “نفسیاتی مریض “والی بات بھی سچ ہی ہے ورنہ ہم جیسے لوگ سوچتے تھے کہ “ایویں گلاں ای بنیاں نے”!
زرداری کا کرائے کا قاتل ایس ایس پی انوار احمد خان، ایم کیو ایم سے تو بچ گیا لیکن سوشل میڈیا سے نہ بچ سکا۔ گو کہ جیو کو بھی کریڈٹ جاتا ہے کہ اس کیس کو اجاگر کیا۔ جواں سال نقیب الّلہ محسود کا قتل بےحد افسوسناک تھا۔ گھر بیٹھے ماڈل بننے والے یہ جوان “ویلے” تو ہوتے ہیں لیکن عموماً بے ضرر ہوتے ہیں اور اپنی ہی ذات میں مست اور خوش رہتے ہیں۔ انوار احمد خان کو اب کوئی نہیں بچا پائے گا کیونکہ دوبارہ اسے وردی میں دیکھ کر سوشل میڈیا پر آگ لگ جائے گی۔ایک ایس ایس پی بیرونِ ملک جب بھاگتا ہے جب عوام کی عدالت سے سزا اور اس پر فوری عمل کا امکان ہو۔ یہ ہے طاقت سوشل میڈیا کی!
ملک کے فرعونوں کو سوشل میڈیا نے گھسیٹ کر محلوں سے نکالا اور یوں نکالا کہ اوسان خطا ہوکر “کیوں نکالا” کی چیخیں سنائی دیتی رہیں۔ ماڈل ٹاؤن کے شہدا کا کفن بھی سوشل میڈیا نے میلا نہیں ہونے دیا۔ اگر “مولانا مُبارک ہو کینیڈوی” تھوڑا سا سنجیدہ ہوتے اور کینیڈا سے پاکستان تک “یار دیاں آنیاں جانیاں ویکھ” کی بجائے عقل سے کام لیتے تو دھرنے کے دوران راحیل شریف کی ضمانت پر ماڈل ٹاؤن کے قاتل سیاستدان ہمیشہ کے لیے سیاست سے باہر ہوجاتے۔ اسی طرح خان صاحب کی ٹھرک اور موقف میں مسلسل تبدیلیاں بھی سوشل میڈیا کی مہربانی ہے۔
پاکستان کے 2013 کے الیکشن میں دو کروڑ کے لگ بھگ ووٹ کاسٹ ہوئے جبکہ ڈھائی کروڑ پاکستانی فیس بُک استعمال کرتے ہیں۔ اسکا مطلب ہے سو یا دو سو غیر جانبدار پڑھے لکھے لکھاری جن کا کسی لفافہ گروپ سے تعلق نہ ہو؛ ووٹ کی حرمت اور سسٹم میں بہتری کیلئے رہنمائی کرسکتے ہیں۔ ہر وہ انسان جو بول سکتا ہے، پڑھ سکتا ہے، لکھ بھی سکتا ہے۔ سوشل میڈیا پر نئے لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی ضروری ہے۔ اگر دو ہفتوں میں قاتل پکڑو انا ہے تو اسی سوشل میڈیا پر اقتدار کے ایوانوں کو ہلانا ہوگا، انصاف کی دیوی کے اندھے پن کا آپریشن کروانا ہوگا۔ پھر حقیقی تبدیلی آئے گی۔ ابھی تو بس شروعات ہے۔
کالم نگار: راؤ کامران علی، ایم ڈی
ہر بدھ وار کو کالم لکھا جاتا ہے۔ اگر پسند آئے تو شئیر کریں۔ مزید کالم پڑھنے کے لئے اس پیج Tez Hay Nok e Qalam کو like کریں شُکریہ۔