ذہنی یا دماغی توازن سے مُراد کسی بھی انسان کی روزمرہ کی زندگی کے معمولات اور طور طریقوں کا تہذیب اور معاشرے کے لیے قابلِ قبول پیمانوں پر پورا اترنا ہے؛ مثلاً ایک عام انسان کسی برتن میں کھانا کھاتا ہے گوکہ وہ زمین پر گرا کر بھی کھا سکتا ہے لیکن عموماً یہ طرزِ عمل جانوروں کے لیے قابل قبول ہے۔ اسی طرح نیویارک یا شکاگو کی سڑکوں پر پڑے لوگ ،نارمل ذہنی توازن کے نہیں سمجھے جاتے کیوں کہ بجائے کسی مناسب جگہ سونے کے، سڑکوں پر پڑے ہیں اسلیے ان کی رائے کو سنجیدگی سے نہیں لیا جائیگا۔ حالانکہ اگر کبھی آپ انکے پاس سے گزریں تو سگریٹ سلگانے کے لیے لائیٹر یا پیسے بڑی تمیز سے مانگتے ہیں۔اسی طرح ہم اسکول میں یا گلی محلے میں دیکھتے ہیں کہ جو دماغی طور پر تھوڑے سے ڈھیلے ہوں انھیں آسانی سے مذاق کا نشانہ بناتے ہوئے، بیوقوف بنایا جاتا ہے اور انکے ذہن میں کوئی بھی بات ڈال کر یا اگلوا کر انکا ٹھٹھا کیا جاتا ہے لیکن بدترین مذاق یہ ہے کہ پوری قوم کو پاگل بنانے کی کوشش کیجائے۔
کیا آپ نے روئے زمین پر ایسی قوم دیکھی ہے جو پندرہ پندرہ گھنٹے کی لوڈ شیڈنگ میں جون جولائی کی گرمی میں محض پانی پی کر روزے رکھتی ہے؟ اتنی شدید گرمی میں چند لوگ چیختے چلاتے ہیں، ٹائر چلا کر مزید گرمی اور حبس کا شکار ہوکر بیٹھ جاتے ہیں۔ کیا آپ کسی ایسی قوم کو جانتے ہیں جس میں مالک مکان کرایہ دار کو اور قرض خواہ قرض دار کو بھرے بازار گالیاں دیتا ہے اور وہ آگے سے ہاتھ جوڑ کر منتیں کرتا ہے؟ کیا آپ کسی ایسی قوم کو جانتے ہیں جس میں ایک عورت آنہ آنہ سنبھال کر، کمیٹیاں ڈال کر کچھ پیسے جوڑے تاکہ چند مرلوں کا پلاٹ لیکر دھیرے دھیرے چن لے اور پھر وہ پلاٹ کوئی اور ہتھیا لے ؟اور جب وہ تھانے جائے تو پلاٹ کو بھول کر عزت بچاتے واپس بھاگ آئے؟ اور اگر عدالت میں جائے تو اس پلاٹ کا فیصلہ پوتے دوتے دیکھیں اور وہ بھی ضروری نہیں کہ حق میں ہی ہو اور جب تک پورے خاندان کے گُردے وکیلوں کی فیسیں دیتے بِک نہ جائیں؟ کیا آپ ایسی کسی قوم کو جانتے ہیں کہ جب سارا دن پریشان رہنے والی سادہ سے جھلی سی ماں، ایک بیٹی کا جہیز لیکر “ڈبل شاہ” کے پاس جائے تاکہ وہ “ڈبل” ہوکر دونوں بیٹیاں بیاہی جائیں لیکن پھر ایک کا بھی گھر نہ بس پائے اور ماں بھی بستر سے نہ اٹھ پائے؟ کیا آپ ایسی قوم کو جانتے ہیں جہاں تیس سال سے حکمران پورے صوبے کی صحت اور تعلیم کو نظرانداز کرکے محض ایک ہی شہر کو آٹزم بچے (autistic child)کی طرح بار بار توڑ اور بنا رہا ہو اور مائک پر آکر کسی غیر مرئی حکمران کو دھمکیاں دے کہ قوم اسے معاف نہیں کرے گی اور قوم بھی تالیاں بجائے؟ جی ہاں آپ اس قوم کو جانتے ہیں اور کیا آپ کو لگتا ہے کہ اتنے مصائب، مشکلات اور دھوکوں ڈراموں کا شکار ہماری قوم اب ذہنی طور پر متوازن رہ چکی ہے یا اب بھی دماغی طور پر صحتمند ہے ؟
اب اس مشکلات کا شکار قوم پر مزید ظلم اترتے ہیں۔ کچھ لوگ ذہنی توازن کی خرابی کی اس پستی تک گر جاتے ہیں کہ اپنے سے کمزوروں پر سفاکی اور ظلم کی انتہا کر دیتے ہیں۔ ڈائن بھی سات گھر چھوڑ دیتی ہے لیکن یہ انھی پاس پڑوس کے بچوں کو جو انھیں عزت سے پیار سے چاچا ماما کہتے ہیں، سفاکی سے ظلم اور تشدد کا نشانہ بناتے ہیں۔ ظلم کا پیمانہ لبریز ہو جاتا ہے، چیخیں مارتے لوگ گھروں سے نکلتے ہیں تو حکمرانوں کو پتا چلتا ہے کہ انکی سیاست اور حکومت اب انسانی سیلاب کا شکار ہونے والی ہے تو وہ پھر ہاتھ پیر مار کر اس درندے کو پکڑتے ہیں۔ یہ دل ہلا دینے والا واقعہ پوری قوم میں ایک نئی آگاہی اور شعور لیکر آتا ہے جس میں اپنی “بُکل میں موجود چور”سے بچنے کے طریقے، اپنے بچوں کو اعتماد میں لینے اور انکی بات سننے کے ایک عمل کی تیاری شروع ہوتی ہے۔ اور مصائب کی ماری ذہنی طور پر پریشان اس قوم کے اوپر ایک اینکر نازل ہوتا ہے جسے ایک ذہنی مریض ,ان پڑھ دیہاتی کے سینتیس بینک اکاؤنٹس اور مافوق الفطرت ریکٹ نظر آتا ہے۔ سپریم کورٹ بھی انصاف کو یقینی بنانے کے لیے اسے سنجیدگی سے لیتی ہے اور پھر جب اینکر کی “اصلیت” سپریم کورٹ کے سامنے آتی ہے تو وہ بچوں کی طرح سپریم کورٹ کو کہتا ہے کہ جی آپ بھی ہسپتالوں میں چھاپے مارتے ہو گویا کوئی بچہ اپنی صفائی دینے کی بجائے دوسرے پر الزام لگا دے کہ تم بھی کرتے ہو اور پھر یہ کہ “میں تو جہاز پر بیٹھ کر بھاگ جاؤں گا”۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا حرج ہے اگر تحقیقات ہو جائیں؟ یقیناً ہونی چاہییں اور ہو رہی ہیں لیکن اگر یہ اتنا سادہ ہے تو سپریم کورٹ نے اینکر پر دہشتگردی ایکٹ کی دفعہ لگانے کا اندیہ کیوں دےُدیا؟ کیونکہ ذہنی پریشانی کی شکار پوری قوم میں ایک ہیجان اور خوف پیدا کرنا دہشتگردی ہے اور اینکر اسکا ذمہ دار ہے۔ اینکر پہلے بھی ایسے ہی بے پر کی اڑانے کا ماہر ہے لیکن پتا نہیں تھا کہ اب اپنے دام میں خود صیاد آجائے گا۔ “سپریم کورٹ کردی کردی میں آپے مجرم ہوئی”، سپریم کورٹ نے بھی کہا “لے فیر سوہنیا نوٹس لے لیا”! قوم کو بچوں کی تکلیفوں سے گزر کر آگاہی حاصل ہو رہی تھی کہ اپنے خود بچوں کی ذمہ داری کیسے لینی ہے اور نبھانی ہے، کیسے محتاط رہنا ہے، کیسے انھیں اکیلے نہیں جانے دینا۔ کیسے بچوں کو بلا وجہ اجنبیوں کی گود میں جانے سے روکنا ہے۔ لیکن جب ہم ذمہ داری خود سے اٹھا کر کسی ریکٹ پر ڈال دیں گے تو خود احتسابی کا احساس ختم ہوگا اور ہمارے آس پاس کے درندے پھر سے ایکشن میں آجائیں گے۔
اب ہوگا کیا؟ وہی ڈرامہ جو ہماری ثقافت کا حصہ بن چکا ہے۔ گلی کا ٹُچا دن کی روشنی میں بدمعاشی اور رات کی تاریکی میں پاؤں میں پڑ جاتا ہے۔ شاہد مسعود صحافیوں کے عظیم تر مفاد میں (بظاہر) نہ چاہتے ہوئے بھی سپریم کورٹ سے معافی مانگے گا، باقی صحافیوں کو بھی پتا ہے کہ ایک صحافی کو ہتھکڑیاں لگ گئیں تو لائن لگ جائے گی اسلئے وہ بھی زور دیں گے۔ پوری قوم کے دس دن برباد کرکے شاہد مسعود کی ریٹنگ بڑھ جائیگی اور قوم کی ذہنی صحت پر یہ ایک اور حملہ کامیاب ہوجائیگا؛ یہ تو پاگل بنا کر ہی دم لیں گے۔
کالم نگار: راؤ کامران علی، ایم ڈی
ہر بدھ وار کو کالم لکھا جاتا ہے۔ اگر پسند آئے تو شئیر کریں۔ مزید کالم پڑھنے کے لئے اس پیج Tez Hay Nok e Qalam کو like کریں شُکریہ۔