تیسری صدی عیسوی میں روم کے بادشاہ کلاڈئیس دوئم کا ماننا تھا کہ کنوارے فوجی، شادی شدہ لوگوں کی نسبت بہترین لڑاکا ہوتے ہیں (کچھ ایسا ہی ماننا اپنے دیسی پہلوانوں کے مہا گرووں کا بھی ہے جسے عرفِ عام میں “لنگوٹ کا صاف” ہونا کہتے ہیں)، اس لیے کلاڈئیس دوئم نے نوجوانوں کی شادی پر پابندی لگا دی۔ تاہم ، ایک پادری، سینٹ ویلنٹائن نے اسے بنیادی انسانی ضرورتوں اور محبت کے جذبے کی نفی سمجھا (نجانے کیوں یہ جوان لڑکی کو نن بناتے وقت ایسا نہیں سوچتے) اور نوجوان فوجیوں کی شادیاں کروائیں۔ جب بادشاہ کو پتا چلا تو حکم عدولی کے جرم میں ویلنٹائن کو سزائے موت دے دی گئی۔ ویلنٹائن ڈے کی نسبت سے جتنی بھی دیومالائی داستانیں گردش میں ہیں، یہ کہانی سب سے زیادہ مقبول اور درست سمجھی جاتی ہے۔ بعد میں سرمایہ کاری نظام نے ہر اس دن کی طرح جس پر تحائف بک سکتے ہیں، ویلنٹائن ڈے کو بھی “چُک دیا”، نتیجتاً محض امریکہ میں اس دن کے حوالے سے لوگ اس سال بیس ارب ڈالرز خرچ کریں گے۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ تہوار پاکستان میں بھی منایا جاتا ہے، کیوں منایا جاتا ہے؟ کون اس کے حق میں ہے؟ کون اس کے خلاف؟ ان کے جوابات سے پہلے پاکستان میں مروجہ محبت کا جائزہ لینا ضروری ہے۔ ہمارے ہاں اسی فیصد جوڑوں کی ارینج میریج ہوتی ہے جس میں اخلاقی اور معاشرتی طور پر “فرض” ہوتا ہے کہ شادی کے بعد محبت کو پیدا کیا جائے گوکہ بچے پہ بچہ پیدا ہوتا رہتا ہے ، لیکن محبت پیدا نہیں ہوتی اور دونوں فریقین کے مطابق، ماہرہ خان اور فواد خان انکے گھروں کے چکر لگاتے تھے لیکن ماں باپ نے ظلم کرکے پھنسا دیا، اسلیے محبت اور اسکے اظہار کی اہمیت کو نظر انداز کیا جاتا ہے۔ لو میرج میں بھی بمشکل ایک فیصد “دونوں طرف ہے آگ برابر لگی ہوئی” والا معاملہ ہوتا ہے ورنہ زیادہ تر ایک طرف “دل سے” اور دوسری طرف “دماغ سے”محبت ہوتی ہے۔ مثلاً شمائلہ کو کسی شادی میں دیکھتے ہی اسلم کا دل آگیا اور محبت کا اظہار کردیا۔ شمائلہ نے فوراً تو جواب نہ دیا لیکن گھر جاکر سوچا، اکلوتی اولاد، اچھا گھر، سوزوکی مہران، پرسنیلٹی ذرا چھوارے جیسی ہے تو کیا ہوا بلکہ اچھا ہے “تھلے لگ” کر رہے گا، اور اگلے دن اسے بھی سچے دل سے “دماغی محبت” ہوگئی۔ یہی حال ہینڈسم جمیل کا ہے، نمرہ سے زیادہ اسے اسکے والدین کی یہ بات بھائی کہ پہلے داماد کو بھی دبئی سیٹ کروا دیا ہے۔ اب ایسے حالات میں ویلنٹائین ڈے پر کچھ لوگ فلرٹ کے، کچھ عشق کے اور کچھ اندر ہی اندر اپنی مالی حیثیت سے اوپر کی گیم ڈالنے کے چکر میں ہوتے ہیں۔
گو کہ ویلنٹائین ڈے کے حوالے سے نوجوان اپنے بزرگوں سے نالاں نظر آتے ہیں لیکن ہوسکتا ہے کہ ناں نوجوان بزرگوں کا نظریہ سمجھ پار ہے ہوں اور ناں ہی بزرگ نوجوانوں کا۔ اگر کسی بھی بیٹی کے باپ کو عشق، محبت یا جنسی تعلقات سے دُشمنی ہوتی تو بارات کے سامنے ہار لیکر نہ کھڑا ہوتا اور پیسہ پیسہ جوڑ کر جہیز کا بیڈ روم سیٹ بھی ایک دن پہلے ہی روانہ نہ کر دیا جاتا۔ صاف سی بات ہے کہ باپ کو ان سب چیزوں کے بدلے بیٹی کے مستقبل کے تحفظ کی گارنٹی چاہیے وہ بھی برملا، بینڈ باجے کے ساتھ کیونکہ باغِ جناح کے کونوں میں پلنے والے محبت کے خفیہ رشتے ، میکلوڈ روڈ کے سستے ہوٹلوں میں چُپکے سے دم توڑ دیتے ہیں۔ یہ ہے وہ خوف جو ویلنٹائین ڈے کی راہ میں حائل ہے۔ مسئلہ یہ بھی ہے کہ جو لوگ امریکہ یا یورپ کو محض فلموں میں اور یوٹیوب پر دیکھتے ہیں وہ اس زندگی کے پرلطف حصے کو تو جانتے ہیں لیکن وہاں کی قدریں نہیں جانتے جہاں “میں تم سے شادی کرونگا” کے بعد کسی کی عزت اور دل سے کھیل کر “ابو دل کے مریض ہیں”، “بہن کے وٹے سٹے میں میری شادی ہورہی ہے” جیسے بہانے باز نہیں ہوتے۔ وہ کافر اچھا یا بُرا کام پوری سچائی سے تمام توقعات واضح کرکے کرتے ہیں۔
دوسری جانب بڑھتی ہوئی تعلیم اور شعور کے ساتھ “مالی کلاس” کے ساتھ “ذہنی کلاس” بھی وجود میں آگئی ہے۔ ایک کلرک کی اعلیٰ تعلیم یافتہ، ترقی پسند اور منطقی سوچ کی حامل لڑکی کی شادی کسی کلرک سے محض اسلیے نہیں کی جاسکتی کہ باپ کلرک ہے یا کوئی ماں اپنے انجنئیر بیٹے کے لیے میٹرک فیل، محض امورِ خانہ داری میں یکتا بہو نہیں لا سکتی۔ اس لیے لڑکے اور لڑکیاں اپنے مستقبل کے جیون ساتھی کو کم از کم کسی حد تک جاننے کا حق رکھتی ہیں۔ اس کا حل یہ ہوسکتا ہے کہ ویلنٹائین ڈے پر لڑکی اور لڑکا اہلِ خانہ کے سامنے ملیں یا بڑوں کی زیرِ نگرانی ایسے بڑے ہال میں دو دو کرسیوں کی ٹیبل پر بیٹھ کر بات چیت کریں؛ مختلف لڑکے بدل بدل کر مختلف لڑکیوں سے تبادلہ خیال کریں اور اگر کوئی مطابقت نظر آئے تو گھر والوں کو اعتماد میں لیکر بات آگے بڑھائیں۔ بدلتے وقت کے ساتھ ایڈجسٹ ہونے کے لیے ہر ایک کا آہستہ آہستہ بدلنا ضروری ہے۔ مجھے پتا ہے کہ اس کالم کے جواب میں کچھ “مجاہدین” (جو کہ خود کوڑا اٹھانے والی کو بھی نہیں چھوڑتے)، ہم سب کو اپنی خود ساختہ تہذیب کا درس دیں گے لیکن یاد رکھیں کہ نوجوانوں کے پاس اب وٹس ایپ اور فیس بُک جیسے مہلک ہتھیار موجود ہے اور اگر انکی مرضی کو نظرانداز کیا گیا تو ویلنٹائین جیسے جذبات کے لیے یہ راستے خود ہی نکال لیں گے جو کہ کہیں زیادہ تباہی کا باعث ہونگے۔ تمام خوبصورت جوڑوں کو جو شادی شدہ ہیں، منگنی شدہ ہیں یا جو seriously dating کر رہے ہیں، میری طرف سے ویلینٹائن ڈے مُبارک ہو!
کالم نگار: راؤ کامران علی، ایم ڈی
ہر بدھ وار کو کالم لکھا جاتا ہے۔ اگر پسند آئے تو شئیر کریں۔ مزید کالم پڑھنے کے لئے اس پیج Tez Hay Nok e Qalam کو like کریں شُکریہ۔