انسانی تاریخ میں جب حملہ آور کسی بھی علاقے پر حملہ کرتے تھے تو لوٹ مار کرکے چلے جاتے تھے۔ سکندر اعظم اور اسکے بعد حضرت عمر رضی الّلہ تعالیٰ عنہ نے آدھی دنیا فتح کرنے کے بعد وہاں نظم و نسق قائم کیا تو ایسے لوگوں کی ضرورت محسوس ہوئی جو ان علاقوں کا سسٹم سمجھتے ہوں اور حکمرانوں اور عوام کے درمیان ایک رابطے کا کام سرانجام دے سکیں اور نظامِ سلطنت چلانے میں حکمرانوں کا ساتھ دے سکیں؛ انھی لوگوں کو اٹھارویں صدی عیسوی میں فرانسیسی ماہرِ معاشیات، “ونسنٹ ڈی گورنے” نے بیوروکریٹس اور اس نظام کو بیوروکریسی کا نام دیا۔ بادشاہت کے بعد جب جمہوری نظام نافذ ہوا تو بیوروکریسی کی اہمیت اور بڑھ گئی کیونکہ ہر آنے والی حکومت چار پانچ سالوں میں نیا نظام نہ تو بنا سکتی تھی اور نہ ہی چلا تو پہلے سے موجود بیوروکریسی سونے میں تُلنے لگ گئی۔ برصغیر پاک و ہند میں باقاعدہ بیوروکریسی ایسٹ انڈیا کمپنی نے متعارف کروائی اور انگریز جاتے جاتے احساس برتری میں ڈوبے “کالے انگریز “بیوروکریٹس کے نام سے اس سیدھی سادھی قوم کیلئے چھوڑ گئے۔
پنجاب میں موجودہ بیوروکریسی اور سیاست کا جائزہ لینے سے پتا چلتا ہے کہ پچھلے پینتیس سالوں میں پاکستان مسلم لیگ نے بیوروکریسی سے “ڈکٹیٹروں” کی طرح کام لیا ہے۔ دانیال عزیز، موجودہ وزیرِ “خوشامد اور جھوٹ امور” کا مشرف کے زمانے میں واحد اچھا کام، اسکا بنایا ہوا ضلعی نظامت کا نظام تھا جو کہ آہستہ آہستہ بہتر ہوجاتا، مگر شہباز شریف نے آتے ہی ختم کردیا۔ جنوبی پنجاب کے فنڈز، ڈپٹی کمشنر تو ایک اشارے پر تختِ لاہور کی میٹرو پر وار دے گا لیکن مقامی ضلعی ناظم یہ کام کرکے تو سیاسی موت مر جائے گا، اسی لیے بیوروکریسی چہیتی بن گئی۔ پنجاب میں شہباز شریف 2007 میں آیا اور یونین اور ضلع کونسل کے الیکشنز 2015 تک نہ ہوئے جبکہ مزید دو سال کی تاخیر سے ٹوٹے پھوٹے اختیارات بلدیاتی سربراہوں کو 2017 میں دئیے گئے اور لوکل ایم پی اے، مُنہ کھول کر پیسے مانگتے تھے جو حمزہ شریف کو بھجوائے جاتے تھے۔ اور یہ منتخب نمائندے بھی بیوروکریسی کی “بیٹری کے چارج” سے چلائے جاتے ہیں۔
جرمن ماہرِ عمرانیات میکس ویبر، بیوروکریسی کا بہت بڑا مداح تھا۔ اسکے مطابق بیوروکریسی انسانوں کے گروہوں کو منظم کرنے اور عوام کی صلاحیتوں کے بہترین استعمال کو یقینی بنانے کا سسب سے بااثر اور مناسب نظام تھا۔ پوری دنیا میں بیوروکریسی کا جو منفی پہلو ہے وہ ہے سست عمل اور سرخ فیتہ۔ ڈکٹیٹر شپ میں “بادشاہ سلامت” کے حکم کو ایک جنبش میں بجا لانا اور جمہوریت میں فائل کو آہستگی سے حرکت دینے میں بہت فرق ہے۔ یہ وہ عمل ہے جہاں کچھ بیوروکریٹ کارکردگی دکھانے کیلئے سست عمل “بائی پاس” کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور اگر پکڑے جائیں تو نیت کی تمام تر اچھائی کے بعد بھی کرپٹ کہلاتے ہیں۔ یہی قصہ کچھ احمد چیمہ کا ہے۔
احد چیمہ کی شہرت ایک ایماندار اور برق رفتار افسر کی ہے۔ “گو گیٹر” ہونے کے باعث وہ شہباز شریف کا منظورِ نظر ہی نہیں بلکہ بوتل کا جن بن گیا۔ کس پراجیکٹ کے لیے شہباز شریف ایک سال دیتا تھا، احد چیمہ دس مہینے میں پورا کر دیتا تھا۔ جہاں تک احمد چیمہ کی شہرت کا تعلق ہے، میری جس بھی سی ایس پی آفیسر دوست سے بات ہوئی سب نے احد چیمہ کی ایمانداری کی گواہی دی؛ حالانکہ وہ کبھی کبھی اپنی “بےایمانیاں” بھی فخریہ بتا دیتے ہیں اور اپنی ایمانداری کے دعوے نہیں کرتے۔ تاہم سب کا کہنا ہے کہ شہباز شریف کی شہہ پاکر وہ چیف سیکرٹری تک کو بھی کچھ نہیں سمجھتا تھا جیسے کہ کراچی میں ایس ایس پی انوار۔ بیوروکریسی کی سست رفتاری کے باعث یقیناً احد چیمہ بھی کچھ ایسے شارٹ کٹس استعمال کرتا تھا جو قانونی تو نہیں ہوتے تھے لیکن افسران بالا کو پتا تھا کہ مقصد کام کو تیز کرنا ہے تو وہ چُپ رہتے تھے۔ اسے “ٹیکنیکل کرپشن” کہتے ہیں۔ اب تک سب ٹھیک تھا لیکن پھر خواجہ سعد رفیق جو کہ لاہور کی ہر جائیداد ہر رال ٹپکانے میں مشہور ہے، احد چیمہ کو اپنی ٹرانس میں لینے میں کامیاب ہوگیا اور وہ بتیس کنال کا مالک بن گیا۔ تاہم اسکی فیملی کے مطابق پچھلے پانچ سات سالوں سے بھاری تنخواہ پر کام کرنے کے باعث، اس نے بچت اور انوسٹمنٹ کرکے جائیداد بنائی ہے۔ جن دنوں میں ہاؤس جاب میں تھا راؤ شکیل ملتان کا ڈپٹی کمشنر تھا اور ملاقات رہتی تھی۔ بہت کم لوگوں کو پتا ہے کہ وہ میجر ریٹائرڈ تھا اور ایک جنرل جو کہ واپڈا کا چئرمین بھی بنا، اسکی اور ایک آئی جی کی مدد سے سول بیوروکریسی میں آیا۔ میں اس کی فوجی اصول پسندی اور دیانتداری سے لبریز گفتگو سے بہت متاثر تھا، لیکن بالآخر اسکی بدترین کرپشن نے حاجیوں تک کو نہیں چھوڑا؛ اسکے باعث بیوروکریسی سے مجھ جیسے لوگوں کا ایمان اٹھ گیا اور اب احد چیمہ جیسا بندہ روشنی اور امید کی کرن تھا۔
دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی تو تحقیقات کے بعد ہو جائے گا تاہم محض ایک ساتھی کی انویسٹی گیشن کے خلاف، بیوروکریسی کی ہڑتال انکے اس وجود اور نظریے کی نفی ہے جو میکس ویبر نے پیش کیا۔ سیاستدانوں پر تو اعتبار کبھی تھا ہی نہیں، جرنیل مارشل لا لگا کر خوار ہوئے اور چند کرپشن سے۔ اب عوام کا بیوروکریسی سے بھی اعتماد اٹھ جائے گا۔ دعا ہے کہ عدل اور انصاف کی جیت ہو تاکہ اچھائی پر یقین دوبارہ قائم ہو۔کوئی ایسا بھی ہو جو ایماندار کہلائے تو نکلے بھی۔
کالم نگار: راؤ کامران علی، ایم ڈی
ہر بدھ وار کو کالم لکھا جاتا ہے۔ اگر پسند آئے تو شئیر کریں۔ مزید کالم پڑھنے کے لئے اس پیج Tez Hay Nok e Qalam کو like کریں شُکریہ۔