رابرٹ پلوچک کا شمار دنیا کے چند مایہ ناز ماہر نفسیات میں ہوتا ہے، وہ البرٹ آئن اسٹائن کالج آف میڈیسن میں نفسیات کا پروفیسر تھا اور خوش قسمتی سے راقم بھی اسی کالج سے منسلک ہسپتال میں اسپیشلائزیشن کررہا تھا جب ایک لیکچر کے دوران اسے ملنے کا اتفاق ہوا۔ پروفیسر پلوچک کی تھیوری “ویلز آف اموشنز” (جذبات کا گول چکر) بے حد مقبول ہوئی۔ پلوچک کے مطابق آٹھ بنیادی جذبات ایک دوسرے سے پیوستہ ہیں جن میں “خوشی اور غمی”؛ “غصہ اور نفرت”؛ “اعتبار اور اندیشہ”؛ “حیرانی اور امید” شامل ہیں۔ یہ جذبات کے گول چکر کا باہر کا حصہ ہے۔ جوں جوں ہم اندر کی جانب جاتے ہیں، ان بڑے جذبات سے چھوٹی چھوٹی شاخیں نکلتی ہیں جن کا اظہارمختلف موقعوں پرمختلف عوامل کے تحت ہوتا ہے۔ ان سب میں سے سے زیادہ طاقتور اور شدید جذبات “غصہ اور نفرت” ہیں۔ صدیوں سے یہ جذبات ابھار کر قوموں کو آپس میں لڑوایا گیا۔ امریکہ کی تاریخ میں پہلی مرتبہ ریبپلیکن پارٹی نے یکے بعد دیگرے دونوں الیکشنز غصہ اور نفرت کی بنیاد پر جیتے۔ صدر بش نے نائن الیون کے بعد دوسری مدت کے انتخابات میں عوام کے غُصے کا بہترین استعمال کیا اور اسکے ساتھ ساتھ خوف کو بھی ابھارا کہ دوبارہ بھی حملہ ہوسکتا ہے اور دیکھا جائے تو یہ خوف اس وقت بےجا نہیں تھا۔ اس غُصے اور خوف کے نتیجے میں افغانستان سے عراق تک آگ بھڑک گئی اور پاکستان بھی اسکی لپیٹ میں آگیا۔ اور اس کے بعد آتے ہیں مسٹر ڈونلڈ ٹرمپ۔
ڈونلڈ ٹرمپ کو امریکہ کی تاریخ کے سب سے غیر سنجیدہ صدارتی امیدوار کی حیثیت سے جانا جاتا تھا۔ واحد امیدوار جو برملا کہتا تھا کہ میں تو ٹیکس نہیں دیتا اور جو دیتے ہیں وہ بےوقوف ہیں اور بھی بہت سی فضول باتیں لیکن وہ جیت گیا؛ کیونکہ اس نے جذبات کے گول چکر میں سے طاقتورترین جذبے “نفرت” کو ہتھیار کی طرح استعمال کیا۔ “وائٹ سپرمیسی” (گوروں کی برتری) کو ابھارا گیا، میکسیکنز کو چور، کالوں کو ڈاکو اور مسلمانوں کو دہشتگرد کہا گیا۔ گوروں کو باور کروایا گیا کہ یہ لوگ تمھاری نوکریاں چھین کر لے گئے ہیں اور جن گوروں نے کبھی ووٹ نہیں دئیے تھے وہ بھی ووٹ ڈالنے پہنچ گئے۔ عمومی رائے یہ تھی کہ وہ جیتنے کے لیے ناٹک کر رہا ہے اور بعد میں “نارمل” ہو جائے گا جیسے اپنے ہاں سڑکوں پر گھسیٹنے کے دعوے کرنے والے جیتنے کے بعد ستر ڈشوں کے دسترخوان پر پلیٹیں بنا کر “گھسیٹ الیہ” کو پیش کررہے ہوتے ہیں؛ لیکن ٹرمپ نے اپنی خو نہیں چھوڑی؛ یروشلم کو اسرائیل کا دارلحکومت بنا کر چھوڑا، نارتھ کوریا کے ساتھ پنگے، شام کی تباہی اور کل کیلیفورنیا میں میکسیکو کے ساتھ دیوار کی جگہ کا بھی معائنہ کرآیا ہے۔ تاہم ہمارے وطن کے حکمرانوں کے خوشامدی چمچوں کے برعکس؛ ٹرمپ کے کئی مصاحب اور مشیر اسے سمجھانے کی تگ و دو میں لگے رہے اور اسکی ہاں میں ہاں ملانے کی بجائے حکومتی عہدے چھوڑنے پر ترجیح دی۔ نیشنل سیکیورٹی ایڈوائزر مائیک فلن سے لیکر ایف بی آئی ڈائریکٹر جیمز کومی تک اور کمیونیکیشن ڈائریکٹرُ مائیک ڈوبکی سے لیکر چیف آف اسٹاف رائنس پریبس اور بہت سے اہم لوگ جو ملکی مفاد کو عہدوں پر ترجیح دیتے ہیں، ساتھ چھوڑ گئے۔ ٹرمپ کی لڑکھڑاتی حکومت کے تابوت میں آخری کیل سیکرٹری آف دی اسٹیٹ (وزیر خارجہ) ریکس ٹیلرسن نے استعفیٰ دیکر ٹھوک دی ہے۔
ریکس ٹیلرسن امریکہ کی ایک بھاری بھرکم شخصیت ہے، دنیا کی چھٹی بڑی تیل کمپنی ایکسون کا سی ای او ہونے کے ساتھ ساتھ روس کے ساتھ بہترین کاروباری تال میل کا ماہر جانے جانے والے ریکس ٹیلرسن نے ماضی مین روس کے خلاف پابندیوں کی مخالفت کی تاہم اب اسے روس سے خدشات تھے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ اس نے ٹرمپ کی الیکشنز میں نہ تو سیاسی مدد کی اور ناں ہی چندہ دیا، پھر بھی امریکہ کے صدر کے بعد آئینی لحاظ سے چوتھے بڑے اور عملی لحاظ سے دوسرے بڑے عہدے پر فائز ہوگیا۔ جہاں ہمارا وزیر خارجہ ایک عدالتی طور پر نااہل وزیراعظم کو “آج بھی میرا وزیراعظم ہے” کہتا ہے وہاں ہی ریکس ٹیلرسن نے ٹرمپ کو برملا احمق کہا یہاں تک کہ ٹرمپ کو اسے کہنا پڑا کہ میرے ساتھ “آئی کیو ٹیسٹ” میں مقابلہ کر لو۔ ریکس ٹیلرسن ن شمالی کوریا کے ساتھ جنگ کا بھی مخالف تھا اور ٹرمپ ٹویٹر پر اسکی اس سوچ کا مضحکہ اڑاتا تھا۔ یہ بات تو نوشتہ دیوار تھی کہ ٹرمپ اسے نکالے ہی نکالے لیکن کل سے خطرے کی گھنٹی بج رہی ہے کیونکہ اسے نکالنے کے بعد سی آئی اے کے انتہا پسند سربراہ، مائیک پومپیو کو سیکرٹری آف دی اسٹیٹ اور اسکی انتہا پسند جونئیر، جینا ہاسپیل کو سی آئی اے کا سربراہ بنا کر ایک انتہا پسندی اور نفرت کا ایسا ترشول تیار کر لیا گیا ہے جو شمالی کوریا کی پشت میں تو گھونپا جائے گا ہی لیکن دیگر ممالک بھی اس سے محفوظ نہیں رہیں گے۔ آنے والے دنوں میں پاکستان کے خلاف دہشتگردوں کو سپورٹ کرنے کے واویلے اور”ڈو مور” کی نئی قسط کی آمد آمد ہے۔ دیکھیں اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے؛ لیکن یہ بات طے ہے کہ ٹرمپ کی نفرت انگیز مہم پوری دنیا کے ایٹم بموں سے زیادہ مہلک ثابت ہوگی۔
کالم نگار: راؤ کامران علی، ایم ڈی
ہر بدھ وار کو کالم لکھا جاتا ہے۔ اگر پسند آئے تو شئیر کریں۔ مزید کالم پڑھنے کے لئے اس پیج Tez Hay Nok e Qalam کو like کریں شُکریہ۔