عامر اور عمرانی لیاقت

عامر لیاقت کا پاکستانی قوم پر احسان ہے کہ اس کے باعث پاکستانی قوم متحد ہوتی ہے۔
سوشل میڈیا پر اکثر گالم گلوچ چلتی ہے۔ زرداری کا حامی نواز کو گالی دیتا ہے اور جواباً نواز کا زرداری کو؛ عمران کے حامی ایان علی کا ذکر کرتے ہیں تو زرداری کے سیتا وائٹ کا؛ ہوتے ہوتے یہ بدزبانی ایک دوسرے کے اہلِ خانہ تک پہنچ جاتی ہے; تاہم عامر لیاقت واحد انسان ہے جسے نواز لیگ، پیپلز پارٹی اور پی ٹی آئی کے لوگ مل کر گالیاں دیتے ہیں تو اس لحاظ سے عامر لیاقت کی ذات عوامِ پاکستان کے اتحاد اور یگانگی کی مظہر ہے۔ کلاشنکوف اور تمنچوں کے زمانے سے پہلے عام لوگ دو چیزوں سے بہت ڈرتے تھے؛ ایک لمبی زبان والے سے، کہ کب کس کی عزت کی ہنڈیا چوراہے پر پھوڑ دے اور دوسرا پارٹی بدلنے والے سے، کہ “اس کے سامنے کوئی بات نہ کرو، یہ پارٹی بدل کر مخالفین کو بتا دیگا”؛ اور عامر لیاقت ان دونوں “خصوصیات” کا منبہ ہے۔ یہ واحد بندہ ہے جس کے بارے میں کسی سے کلمہ خیر نہیں سُنا اور اسکے باوجود اسکی ریٹنگ سب سے اوپر ہے۔

ریٹنگ کیا ہے؟ ریٹنگ یہ ہے کہ کون کتنی بار کسی ٹی وی شو کو دیکھتا ہے یا کسی کالم کو کلک کرتا ہے؛ اس سے قطع نظر کہ ناضر ین دیکھ کر، پڑھ کر گالیاں دیں یا لعن طعن کریں؛ کمپیوٹر صاحب اس “عزت افزائی” کو بھی ریٹنگ ہی سمجھتے ہیں۔ مثلاً جون 2012 میں مبشر لقمان ملک ریاض کا پلانٹڈ انٹرویو کرتے پکڑا اور نکالا جاتا ہے، پورا پاکستان گالیاں دیتا ہے، مبشر دبئی سے صفائیاں پیش کررہا ہوتا ہے اور ٹھیک ایک مہینے کے بعد ایسوسی ایشن آف فزیشنز آف پاکستانی ڈیسنٹ آف نارتھ امریکہ (اپنا) کی کانفرنس میں اے آر وائی کا امریکہ میں چیف، جھینپی سی ہنسی کے ساتھ ہمیں “رازداری سے” بتا رہا ہوتا ہے کہ مبشر لقمان کو ہم لے رہے ہیں کیونکہ لعنتیں اور گالیاں پڑ پڑ کر اسکی ریٹنگ بڑھ گئی ہے۔ یہی حال عامر لیاقت کا ہے۔ لیکن مبشر لقمان کی نسبت اینکری کے ساتھ ساتھ، اسکی اداکاری میں کئی جہتیں ہیں مثلاً رمضان ٹرانسمیشن میں عالم آن لائن، نعت خوانی کا الگ معاوضہ، کراچی میں ایک مخصوص فرقے کے اجتماعات “پکڑنے” کے لیے جنید جمشید مرحوم سمیت دیگر تبلیغیوں پر تبرا، محرم الحرام میں مجالس اور مرثیے پڑھنا۔ جس پٹھان کی کربلا میں “نسوار بند” ہونے سے چیخیں نکلی تھیں، عامر لیاقت “قہوہ بند” کرنے کا بتا کر بھی نکلوا سکتا ہے۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ عمران خان نے اسے کیوں لیا؟ اسکی کئی تھیوریاں ہوسکتی ہیں؛ ایک تو یہ کہ ریحام خان کی کتاب آرہی ہے اور جہاں وہ مبینہ طور پر عمران خان پر جھوٹے اور غلیظ الزامات لگائے گی، وہاں عامر لیاقت ریحام خان کے بنی گالہ کے درختوں تک سے “تعلقات” ثابت کرسکتا ہے (یاد رہے ایشوریا رائے کی بھی بندر اور درخت سے شادی ہو چکی ہے۔ اس سے آگے کی خبر نہیں) مزید یہ کہ “عدت” اور پیرنی کا بھی نون لیگ نے الیکشنز میں فائدہ اٹھانا ہے تو کوئی جوابی “بھانڈ” ادھر بھی ہونا چاہیے۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ “سابقہ عالم دین” حالیہ “پیرنی” کا طریقتی بھائی ہو اور سفارش کہیں نزدیک سے آئی ہو!

ان سب باتوں کے ساتھ یہ بھی حقیقت ہے کہ عامر لیاقت جب سیاسی جماعت میں شامل ہورہا ہے تو بطور اینکر ایک کروڑ ماہانہ آمدنی کو بھی لات مار رہا ہے۔ الطاف حسین کی وطن مخالف تقریر کے بعد اسے ایم کیو ایم کا سربراہ بنانے کا عندیہ بھی دیا گیا اور مہاجروں نے اس امکان کو سراہا بھی لیکن عامر لیاقت کے “ناقابلِ اعتبار” ہونے اور “بغیر اسکرپٹ کے” ڈرامہ بازی کے باعث اسٹیبلشمنٹ نے ایم کیو ایم توڑنے کو ترجیح دی۔ آج جب فاروق ستار اور عامر خان یونین کونسل لیول کی سیاست کررہے ہیں، پریشان مہاجر، عامر لیاقت کے ساتھ پی ٹی آئی میں آسکتے ہیں۔ انصافین ناراض ہیں لیکن پھر عامر لیاقت “کرافٹس مین “ ہی کیا اگر ایک ہفتے کے اندر چائنہ کے شاہ رخ خان کی طرح اوور ایکٹنگ کرتا ہوا، مریم اور نواز کے لتے لیتا ہوا، انھی انصافیوں کو اپنے کلپس شئیر کرنے پر مجبور نہ کردے اور اگر پھر بھی انھیں چین نہ آئے تو کڑک دار چائے کا بھرا ہوا مگا ہاتھ میں پکڑ کر “سڑوکے” لگاتے ہوئے “غالب” فلم دیکھیں!

کالم نگار: راؤ کامران علی، ایم ڈی
ہر بدھ وار کو کالم لکھا جاتا ہے۔ اگر پسند آئے تو شئیر کریں۔ مزید کالم پڑھنے کے لئے اس پیج Tez Hay Nok e Qalam کو like کریں شُکریہ۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *