پچیس اپریل کی صبح بارش کی ہلکی سی پھوار میں نکھرے ہوئے واشنگٹن ڈی سی میں قدم رکھا تو کھلتی ہوئی گلابی “چیری بلاسم”نے جھومتے ہوئے استقبال کیا۔ ہمارا کنسلٹنٹ، امریکی نژاد یہودی، آری مٹلٹن نے اپنی مخصوص پیشہ ورانہ مُسکراہٹ کے ساتھ خوش آمدید کہا۔ ہم نے کافی اٹھائی اور امریکہ کے کونے کونے سے آئےاپنے ساتھیوں کا انتظار کرنے لگے۔ یہ دن “اپنا” (امریکہ میں پاکستانی ڈاکٹروں کی نمائندہ تنظیم) نے امریکہ کے دارلحکومت واشنگٹن ڈی سی کی پارلیمنٹ میں نوجوان پاکستانی ڈاکٹروں کی ویزوں کے اجرا کے حوالے سے اپنے موقف کے فروغ کے لیے مختص کیا تھا۔ ایسی تقریب کو “ڈے آن دا کیپیٹل ہل” یعنی نمائندگانِ پارلیمان کے ساتھ ایک دن جس میں اپنے موقف کے حامی کانگریس مین اور سینیٹرز کو اکھٹا کرکے موقف کو عملی جامہ پہنانے میں ان سے مدد اور تعاون طلب کیا جاتا ہے۔ گزشتہ چند سالوں سے پاکستانی ڈاکٹروں کے ویزوں کی بڑھتی ہوئی منسوخی تشویشناک صورتحال اختیار کر گئی ہے۔ اسی لئے اس لابنگ کا انعقاد کیا گیا تاکہ ویزوں کی منسوخی سے پہلے ہی اسکا تدارک کیا جاسکے۔ “اپنا” کے موجودہ صدر ڈاکڑ اقبال ظفر حمید نے منتخب ہوتے ہی یہ ذمہ داری راقم کو سونپی تھی کہ اس حوالے سے ایک ٹیم تشکیل دی جائے۔ گزشتہ ایک سال میں ہر وہ پاکستانی ڈاکٹر جو سیاسی میدان میں سرگرم تھا، اس سے شمولیت کی درخواست کی گئی اور اکثریت نے قبول کرلی۔ جب ٹیم مکمل تو میری آدھی سے زیادہ ٹیم سے یا تو کبھی ملاقات نہیں ہوئی تھی یا سرسری سی شناشائی تھی کیونکہ ٹیم میں یاری دوستی کی بجائے پولیٹیکل ایکٹوازم کو ترجیح دی گئی تھی۔ امریکہ میں موجود پاکستانی پولیٹکل ایکشن کمیٹیوں کو درخواست کی گئی تھی کہ وہ اپنا سارا سال جاری رہنے والی سیاسی کاوشوں کو “اپنا” اور نوجوان ڈاکٹروں کی فلاح و بہبود کے لئے وقف کریں اور پاک
پیک (پاکستانی امریکن پولیٹکل ایکشن کمیٹی) نے اس کو دل و جان سے تسلیم کیا اور “اپنا” کے موقف کی تائید کے لئے امریکہ کے واحد ڈاکٹر کانگریس مین “راؤل رویز”جو ایک مہاجر کے برخوردار ہیں کو لنچ پر بُلایا اور سولہ کے قریب اپنا ممبران کے ساتھ ایک الگ نشست کا اہتمام کیا۔ ڈاکٹر رویز نے “اپنا”کے ڈاکٹروں کے ویزوں کے حوالے سے ہر ممکنہ مدد کی یقین دہانی کروائی۔ “ڈے آن دی ہل” پر آنے والے بیشتر کانگریس مین /وومین اور سینیٹرز بھی پاک پیک کے بورڈ ممبران کی سالہا سال کاوشوں سے بنائے گئے تعلقات کے نتیجے میں آئے تھے؛ جن میں شامل ہیں ڈاکٹر سلیمان ملک، جو نیو ہیمپشائر سے آئے اور سینیٹرز میگی حسن اور سینیٹر جین شاہین سے ملاقات کی، ڈاکٹر جلیل خان جو ٹیکساس سے آئے اور کانگریس وومین شیلا جیکسن اور کانگریس مین مارک ویزی کو مدعو کیا، ڈاکٹر عمر فاروق نے کانگریس مین، برائن فیٹزپیٹرک کو مدعو کیا جو ہمیشہ آتے ہیں لیکن فرانس کے صدر کی تقریب کے باعث نہ آ سکے تاہم بھرپور مدد کا یقین دلایا۔ راقم کے قریبی کانگریس مین مائیک ٹرنر اور نے آکر اپنی مکمل حمایت کا یقین دلایا، نیو جرسی کے ڈاکٹر بابر راؤ کے دستِ راست کانگریس مین جم کاسٹا اور کانگریس مین ٹام سوزی مدعو تھے۔ نیواڈا سے کانگریس وومین ڈینا ٹائیٹس اور سینیٹر میسٹو، پاک پیک کی ہی حنادی ندیم کے مدعو کردہ تھے۔ تاہم انکے شوہر ڈاکٹر ندیم طارق کا تعلق “اے پی پیک” سے ہے تو نیواڈا کے حوالے سے کریڈٹ اس پولیٹیکل ایکشن کمیٹی کو بھی جاتا ہے۔ ڈاکٹر ندیم طارق اور مسز حنادی ندیم کا شمار ہیلری کلنٹن کے رفقا میں ہوتا ہے اورامریکی پاکستانیوں میں سیاسی آگاہی اور اثرورسوخ میں پیش پیش ہیں۔
اپنا کے دیگر ممبران جن کا تعلق کسی پولیٹکل ایکشن کمیٹی سے نہیں لیکن وہ اپنا کام کاج چھوڑ کر ہماری مستقبل کی نسل کی ترقی کے لئے آئے، جن میں ڈاکٹر فتح شہزاد کینٹکی سے، ڈاکٹر لبنیٰ نعیم ٹیکساس سے تشریف لائے۔ ڈاکٹر رشید پراچہ، ڈاکڑ حماد حفیظ اور ڈاکٹر عمران نے کانگریس مین ٹم کین اور سینیٹر وان ہیلن سے ملاقات کی، ڈاکٹر پراچہ جو کہ اپنا کے سابقہ صدر بھی ہیں نے سینیٹر مینشن سے ملاقات کی جبکہ اپنا کے ہی سابقہ صدر ڈاکٹر جاوید اختر نے سینیٹر باب کیسی سے جس گروپ کے ہمراہ ملاقات کی ان میں ڈاکٹر اقبال ظفر حمید سرفہرست ہیں۔ ڈاکٹر اقبال ظفر حمید، اس پورے پراجیکٹ میں روز اوّل سے شامل تھے اور پوری رات آپریشن تھیٹر میں کام کرنے کے باوجود دو فلائٹیں لیکر واشنگٹن ڈی سی پہنچے تھے اور تھکن سے چور مگر پرجوش تھے۔ انھی کی کاوشوں سے امریکہ میں پاکستانی، انڈین اور بنگلہ دیشی ڈاکٹروں کی تنظیموں میں معاہدہ ہوا تھا اور “سپنا” South Asia physicians of North America بنائی گئی تاکہ سب اختلافات کو پس پشت ڈال کر جنوبی ایشیا میں مریضوں کی فلاح و بہبود کے لیے مل کر کام کیا جائے۔ ڈاکٹر حمید کی کاوشوں کے اعتراف میں کانگریس وومین پرمیلا جیاپال نے تقریب میں شرکت کی اور ڈاکٹر حمید کے “سپنا”کے سپنے کو حقیقت میں بدلنے پر مبارکباد دی. ڈاکٹر طارق بٹ کو ایک ایمرجنسی مریض کے لیے شکاگو ائرپورٹ سے واپس جانا پڑا لیکن انکے دوست کانگریس مین کرشنامورتھی نے شرکت کی، کانگریس مین جو ولسن، اپنا کے منتخب صدر ڈاکٹر نسیم شیخانی کی دعوت پر آئے جبکہ کانگریس مین نورکروس، نیو جرسی کے ڈاکٹر جمیل محسن کی دعوت ہر تشریف لائے۔ ڈاکٹر عثمان ملک، ڈاکٹر اکبر، ڈاکٹر مبارک شاہ ،ڈاکٹر رشید چوٹانی،ڈاکٹر حبیب چوٹانی، ڈاکٹر طارق شہاب، ڈاکٹر شہزاد خان ، طارق خان اور اکبر چوہدری صاحب تمام مصروفیات ترک کرکے تشریف لائے اور اپنا قیمتی وقت دیا۔انڈیانا کے ڈاکٹر فرخ ادھمی کا جذبہ قابلِ تحسین ہے کہ انھوں نے انتھک محنت کرکے کانگریس مین آندرے کارسن، کانگریس مین جم بینکس اور سینیٹر ڈونلی سے میٹنگ طے کی اور ڈاکٹر لبنیٰ نعیم اور ڈاکٹر فتح شہزاد کے ہمراہ ملاقات کی۔ اس سب کے پیچھے ایک انسان کے تعاون کا شُکریہ نہ ادا کرنا ناانصافی ہوگی اور وہ ہے رفعت چغتائی جو ڈاکٹر نہ ہونے کے باعث سامنے تو نہ آئیں لیکن پاک پیک کے سارے دوست کانگریس مین اور سینیٹرز کو متحرک کیا۔ انکا ماننا ہے کہ ہم اپنی آنے والی نسل کے لیے کام کر رہے ہیں، کوئی کسی تنظیم یا کمیٹی پر احسان نہیں کررہا۔ کانگریس مین ٹوکانو، جن کے والدین مہاجرین کیمپ میں رہے، رفعت کی درخواست پر تشریف لائے۔
“ڈے آن دی ہل” کے اختتام پر ہمارے وفد نے امریکہ میں پاکستانی سفیر اعزاز چوہدری سے ملاقات کی۔ پاکستانی سفیر نے “اپنا” بالخصوص ڈاکٹر اقبال ظفر حمید کی کاوشوں کو سراہا اور “اپنا” کی سمر میٹنگ کے ساتھ یوتھ کنونشن کے انعقاد کی خواہش کا اظہار کیا کو ڈاکٹر حمید نے فوراً قبول کر لی۔ امریکہ میں رہتے ہوئے میری نظر سے آج تک کوئی ایسا سفیر نہیں گزرا ہے جو بیک وقت امریکی ڈپلومیٹس اور سیاستدانوں میں اتنا پاپولر اور بااثر ہو جتنے اعزاز چوہدری ہیں ۔ امید ہے کہ انکی اعلیٰ کارکردگی کے اس تسلسل کو کسی “نئے ایڈوینچر “کے لئے حکومتِ پاکستان ختم نہیں کرے گی۔
کیپیٹل ہل کی طاقت کی غلام گردشوں سے باہر آتے ہوئے “آری مٹلٹن” نے دوستانہ مسکراہٹ کے ساتھ کہا کہ اس ملک امریکہ میں مسلمان اور یہودی اکھٹے آئے۔ آج اتنے امیر ڈاکٹروں کی تنظیم ویزوں کے رونے رو رہی ہے جبکہ آج ہی کے دن مسلمانوں پر امریکہ کے بین کی سپریم کورٹ میں سنوائی ہے اور سپریم کورٹ کا آدھا بینچ یہودی ہے جبکہ تیرہ فیصد سینیٹ یہودی ہے۔ امریکی پاکستانیوں میں بھی اندرونِ خانہ خانہ جنگی سارا سال دماغ اور وسائل کو مختلف الیکشنز میں الجھا کر رکھتی ہے۔ امریکہ کی اشرافیہ میں ہمارے “لفظی جینئس” بات بات پر کہتے ہیں کہ بیوقوف پاکستانیوں کو کیوں سمجھ نہیں آتا کہ اگر پاکستان میں کالا باغ ڈیم آج شروع نہ کیا گیا تو اگلے بیس سال میں خشک سالی اور قحط سے کروڑوں نہیں تو لاکھوں مر جائیں گے؛ لیکن انھیں یہ سمجھ کیوں نہیں آتا کہ اگر آج، کانگریس، سینیٹ، کاؤنٹی، ملٹری اور امریکی اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ میں ہماری نمائندگی نہ ہوئی تو اگلے بیس سالوں میں یہ “مسلم بین” کا سانپ اژدھا بنتا ہوا ہمیں ایسا ہی حقیر کیچوا بنا دے گا جیسے یونان کے کلیساؤں کے غلام تھے، عرب میں عجمی تھے، گوروں میں کالے تھے اور انڈیا میں دلت تھے بلکہ ہیں۔اس کا حل صرف “ایڈووکیسی ورکشاپس” اور آگاہی ہیں۔ “اپنا” اور دیگر تنظیموں یک سالہ “ڈنگ ٹپاؤ”پالیسی سے اوپر سوچنا پڑےگا ورنہ انجام نوشتہ دیوار ہے۔
کالم نگار: راؤ کامران علی، ایم ڈی
ہر بدھ وار کو کالم لکھا جاتا ہے۔ اگر پسند آئے تو شئیر کریں۔ مزید کالم پڑھنے کے لئے اس پیج Tez Hay Nok e Qalamکو like کریں شُکریہ۔