سیاحتی دہشتگردی

زندگی میں آخری مرتبہ پاکستان کے شمالی علاقہ جات کا سفر 2003 میں کیا تھا اور پھر نہ تو واپس جانے کا موقع ملا اور نہ خواہش ہوئی۔ اسلام آباد سے سوات ،مینگورہ ، مالم جبہ سے ہوتے کالام پہنچے۔ قدم قدم پر جھوٹ؛ جیپ کا کرایہ پندرہ سو “لیکن وہ تو ایک سائیڈ کا تھا”، بتایا کیوں نہیں ؟ “سب کو پتا ہے، اس ساتھ والی جیپ ڈرائیور سے پوچھ لو” اور خواجہ کا گواہ ڈڈو!!! کالام پہنچ کر سوچا کہ میرا گرین کارڈ اپلائی ہو چکا ہے، اب کوئی مسئلہ ہوا تو “فارنر کارڈ” استعمال کروں گا۔ کالام کے ہوٹل کے ریسیپشن پر میرے سامنے کھڑے برٹش نیشنل جوڑے نے کسی بات پر احتجاج کرتے ہوئے اپنے سفارتخانے شکایت کرنے کی دھمکی دی تو مینیجر نے بے شرمی سے پیچھے پہاڑوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا، سارے “فارن نیشنل “یہاں اغوا کرکے رکھے جاتے ہیں۔ کوئی حکومت کچھ نہیں کرسکتی، تاوان بھی کبھی قبول کر لیتے ہیں کبھی ویسے ہی مار پھینکتے ہیں بہتر ہے کہ کسی کو بتائیں ہی ناں کہ آپ برطانوی شہری ہیں؛ یہ سُن کر میں نے “فارنر کارڈ” استعمال کرنے کا ارادہ کینسل کردیا۔ اس سے اگلے دن مہودند جھیل کا سفر تھا۔ اگر کسی نے موت کو قریب سے دیکھنا ہو تو کالام سے مہودند جھیل کا سفر کر لے۔ ٹوٹے گلیشیر کے اوپر سے اچھلتی کھٹارہ جیپ؛ موت نہ آئی لیکن اگلے دو دن پیٹ کے بل سونا پڑا کیونکہ کمر پتھروں پر رولر کوسٹر کرکے جواب دے گئی تھی۔ یہ وہ “سیاحت” تھی جس پر کتنے مہینوں سے پیسے جمع کرکے لوگ فیملی کو لیکر آتے ہیں۔

فیس بک اور دیگر سوشل میڈیا نے پوری دنیا بالخصوص پاکستان میں سیاحت کو بے پناہ فروغ دیا ہے۔ جب ہنستے کھلکھلاتے لوگوں کی حسین نظاروں میں تصاویر دیکھنے کو ملتی ہیں تو دل چاہتا ہے کہ خود بھی سیر کی جائے۔ سیاحت میں دو چیزیں بہت اہم ہیں ۱-بہترین سروس
۲-سیاح کی حفاظت
بدقسمتی سے یہ دونوں عوامل پاکستان میں مفقود ہیں۔ مری کی بدترین سروس سے شروع ہونے والا دکھ وادی نیلم میں بچوں کے حادثے نے انتہا پر پہنچا دیا۔
مری والوں کی سروس کی بے حسی اور بدمعاشی کوئی نئی بات نہیں لیکن اب یہ گلاس بھر کر چھلک گیا ہے۔قوم اکھٹی ہوکر انھیں وہ سبق دے رہی ہے جو نہ تو “زندہ بھٹو” دے سکا، نہ اربوں روپے کے مری میں محل بنا کر رہنے والی شریف فیملی اور نہ ہی فوجی حکومت۔ مری کے اس بائیکاٹ کا فائدہ اٹھاتے پٹھان بھائی اپنے اپنے علاقوں کی پروموشن کر رہے ہیں لیکن وہ بھی کسی سے کم نہیں۔ مری والے ہاتھا پائی اور بدتمیزی کرتے ہیں تو وہ تو اٹھا لینے اور غائب کر دینے سے کم پر بات نہیں کرتے۔
ایک لوئر کلاس یا مڈل کلاس کے شریف لڑکا لڑکی کے پاس شادی کے بعد محض ایک دو مہینے ہوتے ہیں جن میں وہ دل کے ارمان نکال سکیں۔ لڑکی نے دیپیکا پڈکون سے لیکر عالیہ بھٹ تک سے سیکھے سارے ناز نخرے اور تیر اسی عرصے میں چلانے ہوتے ہیں کیونکہ بعد میں وہی گھرداری، بچے، لڑائی جھگڑے۔ شمالی علاقہ جات میں بھی مری کی طرح ان اٹھکیلیاں کرتے نئے نویلے جوڑوں سے بدتمیزی کی جاتی ہے اور زیادہ تر لوگ ان جوڑوں کو “غیرت” سمجھانے کی کوشش کرتے ہیں لیکن اگر آپ ان “غیرت کے ٹیچروں” کو ہزار کا نوٹ تھمائیں تو انکی غیرت بھی تھم جاتی ہے اور خالص چرس بھی آفر کی جاتی ہے۔

اس کے بعد آتی ہے سیاح کی حفاظت۔ جو بھی دنیا کے بیشتر سیاحتی مقامات دیکھ چکا ہو وہ آپکو بتا سکتا ہے کہ یہ سب مقامات ناصرف محفوظ ہیں بلکہ کسی حد تک سستے بھی۔ پاکستانی حکومت بڑے مزے سے بورڈ لگا دیتی ہے کہ پانچ سے زیادہ لوگ پل پر نہ چڑھیں لیکن یہ بھی چاہتی ہے کہ سیاحت کو فروغ ملے۔ پوری دنیا میں مضبوط ترین سسپینشن برج (لٹکے ہوئے پل) بن رہے ہیں اور کبھی حادثہ نہیں ہوا۔ اگر ہم محض چند ملک دشمن، عوام دشمن سیاستدانوں کی بلٹ پروف گاڑیوں میں استعمال ہونے والا شیشہ ہی نکال لیں تو ایک مضبوط لٹکا ہوا پل بنایا جا سکتا ہے کیونکہ جو بچے حادثے کا شکار ہوئے وہ کرپٹ سیاستدانوں سے زیادہ اہم ہیں۔ اس واقعہ سے ہٹ کر بھی جو متواتر حادثات ہوتے ہیں وہ سیلفی لیتے ہوئے ہوتے ہیں اور ان میں بھی سب سے زیادہ ہوتے ہیں جلدی جلدی سیلفی لیتے۔ کئی “فارغ لوگ” جن کی اپنی تصویروں کو کوئی لائک نہیں کرتا، ہر وقت سیلفی پر تنقید کرتے ہیں اسے نفسیاتی مسئلہ قرار دیتے ہیں جس کے باعث سیلفی کے شوقین شرماتے ہوئے گھبراتے ہوئے جلدی جلدی سیلفی لیتے ہوئے حادثوں کا شکار ہوتے ہیں۔ جب کیمرہ آپکا، چہرہ آپکا،سوشل میڈیا اکاؤنٹ آپکا تو کسی کو کیا تکلیف ہے؟ جسے پسند نہیں آپکو “ان فرینڈ” یا “ان فالو” کردے۔آپ بالکل سکون آرام سے سیلفی لیں، ادھر ادھر دیکھ کر اور جلد بازی میں حادثوں کاشکار نہ ہوں۔ یہ تنقید کوئی نئی چیز نہیں ہے۔ گلی محلوں میں بھی ایسے لوگ کوشش کے باوجود صنفِ مخالف کی توجہ نہ پاکر ٹوپی پہن کر دوزخ کی یاد کرواتے دوسروں کے رنگ میں بھنگ ڈالتے ہیں۔ اسکولوں اور کالجوں میں بھی ایسے سارے “تھُڑے” ایک جماعت میں شامل ہوکر یہی کام کرتے ہیں۔

آج سے تین ماہ پہلے فلوریڈا میں سترہ بچے دہشتگردی کا شکار ہوئے اور ان بچوں کے لواحقین نے دھرتی ہلا کر رکھ دی، پورے امریکہ سے لوگ واشنگٹن ڈی سی میں اکھٹے ہوئے اور طاقت کے ایوانوں کو یوں للکارا کہ امریکہ کے پانچ بڑے اسٹورز جن میں ڈک اسپورٹس اور وال مارٹ شامل ہیں نے آٹومیٹک رائفل AR-15 کی فروخت بند کردی۔ چالیس سے زائد مستقبل کے مسیحا پانی میں بہہ گئے۔ تو کیوں ناں پھر ہم بھی دھرتی ہلا دیں۔ کیا آپ کو یقین ہے کہ آپکے بچے مستقبل میں ایسی جگہوں ہر محفوظ رہیں گے؟ کیا آئندہ پل کی بجائے چئیر لفٹ نہیں ٹوٹ سکتی؟ جس ایم این اے، ایم پی اے کے حلقے میں مری اور وادی نیلم ہے انکے خلاف کیسسز دائر کئے جائیں۔ ان علاقوں میں سخت اور اچھی شہرت کے افسران لگائے جائیں۔ نواز شریف سے لیکر عمران خان کو اسکا جواب دینا ہے۔ باتیں بہت ہوگئیں، اگر ہم نے دوسروں کے دکھ کو اپنا دکھ نہ سمجھا تو انتظار کریں جب یہ دکھ خدانخواستہ ہمارا مقدر بن جائے۔

‏‎کالم نگار: راؤ کامران علی، ایم ڈی
ہر بدھ وار کو کالم لکھا جاتا ہے۔ اگر پسند آئے تو شئیر کریں۔ مزید کالم پڑھنے کے لئے اس پیج Tez Hay Nok e Qalamکو like کریں شُکریہ۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *