دین کا فہم اور عملی تبلیغ

نوے کی دہائی کے اوائل میں ایک ایسا مذہبی انقلاب گلی گلی اُمڈ آیا جس میں سبز پگڑیوں سے مزین بزرگ، نوجوان اور بالخصوص بچے جنھیں پیار سے “مدنی مُنے” کہا جاتا تھا قریہ قریہ نظر آنے لگ گئے۔ مشرقی ثقافت میں ہماری بچیاں تو ہمیشہ ہی چادر اوڑھے اور خود کو لپیٹے رکھتی تھیں، دعوت اسلامی کی پیروکار بن کر مزید ڈھیلے ڈھالے برقعوں میں چھپ گئیں اور ہاتھوں تک میں دستانے پہن لیے۔ اس جماعت کے لوگوں کی “کمیونیکیشن” ہر معاملے میں “مدینہ” “مدینہ” کہہ کر ہوتی تھی؛ پہلے پہل تو خاصی الجھن ہوتی تھی کہ بھائی کہنا کیا چاہ رہے ہو؟ لیکن پھر بات سمجھ میں آنے لگ گئ اور ایک واضح تبدیلی نظر آئی؛ گلی کے غنڈے سبز پگڑی پہن کر سر جھکا کر چلنے لگے، بچے والدین کے فرمانبردار بن گئے، لڑکیوں نے ٹی وی، میوزک ترک کرکے پڑھائی اور گھر کے کاموں پر توجہ دینی شروع کر دی۔ مجھے ذاتی طور پر “میٹھے اسلامی بھائیوں” نے “سنتوں بھرے اجتماع” میں شرکت کی دعوت دی تو انکار نہ کرسکا۔ “سنتوں بھرے اجتماع” میں پتا چلا کہ سجدے میں پیروں کی انگلیوں کے پیچھے کا حصہ زمین پر لگنا ضروری ہے۔ اس طریقے سے ماتھے پر پورے جسم کا اتنا زور پڑتا ہے کہ مہنیے بھر میں ہی محراب کا نشان بن جاتا ہے۔ اسی طریقے سے میٹھے“اسلامی بھائیوں” کے ماتھوں پر گہرے محراب کے نشان چمکتے نظر آتے ہیں۔

دنیا میں طریقت کو عملیت چاہئے ہے۔ محض زبانی کلامی عشق زیادہ دیر تک نہیں چل سکتا۔ آہستہ آہستہ سبز پگڑیاں اُتر کر “ہیر اسٹائل” واپس آتے گئے اور اب سوائے کراچی کے ، دیگر شہروں میں کوئی کوئی “اسلامی بھائی” نظر آتا ہے۔ کچھ عرصے سے مولانا الیاس قادری صاحب کی ویڈیوز جنھیں مضحیکہ خیز ہی کہا جا سکتا ہے، فیس بُک پر نظر آئیں۔ میں یہ ویڈیوز دیکھ کر ششدر رہ گیا۔ “جو دین بڑی شان سے نکلا تھا وطن سے”، آج اس کے ساتھ کیا کھلواڑ کیا جارہا ہے؟ ٹینڈے کاٹنے کے مذہبی طریقے، کھیرے کے چھلکے، کیلا کیسے چھیلنا ہے، موٹر سائیکل پر کسی کے پیچھے بیٹھتے وقت شہوت سے بچاؤ کا مدنی تکیہ؟؟؟؟؟؟ ویسے تو تقریباً ہر مذہبی جماعت میں چیف صاحب کا اسسٹنٹ کوئی نیم پاگل یا گھر سے “ویلا” گوہرِ نایاب ہوتا ہے جسے فراغت میں ایسے واہیات خیالات آتے رہتے ہیں کہ جب وہ انھیں شیطانی خیالات کہتا ہے تو شیطان آکر ہاتھ جوڑ لیتا ہے کہ گرو جی، اتنا گھٹیا خیال تو میری سوچ سے بھی اوپر کی بات ہے” اور امیرانِ جماعت (جو ایسے نیم پاگل کو سائیں یا نعوذبالّلہ، الّلہ والا قرار دیتے ہیں) سوالات کے جوابات ذاتی محفلوں میں تو شروع سے دیتے آئے ہیں اب خیر سے عام عوام کو بھی ایسے نادر وسوسوں سے مستفید کرنے کے لیے “مسکراتے ہوئے” ویڈیو ریلیز کردیتے ہیں اور یہ جوابات بذاتِ خود وسوسے پیدا کرنے والے ہوتے ہیں۔ رمضان المبارک میں ایک “قادری بھائی” ٹی وی پر میڈیکل سائنسز اور فزکس کا “کمبائنڈ ریپ” کرتے فرما رہے تھے کہ روزے میں استنجا کرتے وقت سانس اوپر کھینچنے سے لوٹے کا پانی اوپر پیٹ میں چلا جاتا ہے اور روزہ ٹوٹ جاتا ہے۔ حالانکہ “نیچے سے”پچیس فٹ لمبی آنت سے ہوتا ہوا پانی اوپر معدے میں پہنچانے کے لیے پیٹ میں ڈنکی پمپ لگانا پڑے گا۔

یہ مذہب کی دو انتہایئں ہیں۔ ایک فرقہ “مدنی تکیے” اور دوسرے فرقے “قتل کے فتوے”سے کم بات نہیں کرتے۔ دورِ حاضر کا سب سے بڑا فتنہ الحاد (atheism) ہے جو پاکستان کے تعلیمی اداروں میں تیزی سے پھیل رہا ہے اور جب یہ تناآور بن کر باہر آئے گا تو سطحی اور فروعی مسائل میں مشغول مذہبی جماعتوںُ کی بینڈ بج جائے گی۔ نوجوانوں کو تیزی سےمرتد (apostate) بنایا جارہا ہے اور اس کے لیے سب سے مددگار ہتھیار “قتل کے فتوے” اور اب موٹرسائیکل کے پیچھے بیٹھنے سے شہوت ہونے سے بچانے کے مدنی تکیے اور “روزہ توڑ استنجے”، ہیں۔ انکے ذریعے کچے ذہنوں کو بڑی تیزی سے یہ یقین دلا دیا جاتا ہے کہ (نعوذ بالّلہ) وہ کسی ظالم یا مضحکہ خیز مذہب کے پیروکار ہیں۔ مختلف جعلی پیروں کے ریپ اور گندی گالیاں دیتے مجذوبوں کی ویڈیوز، پاگلوں جیسی اچھل کود جسے “عشق” کے کھاتے میں ڈال دیتے ہیں، وٹس ایپ کے ذریعے پوری دنیا میں پھیل رہی ہیں۔ ان کم عقل مسلمانوں سے دینِ محمد کو یہودیوں اور نصرانیوں سے زیادہ خطرہ ہے۔ ایک مسلمان ہونے کی حیثیت سے، میں پرویز ہود بھائی کا فین نہیں کیونکہ وہ “الحاد” کی تبلیغ کرتا ہے لیکن ایک طرف “مدنی تکیے”اور “پین دی سری” جیسی نان سینس اور دوسری طرف ہود بھائی کی ذہانت اور جدید علم سے مزین دلیل؛ کیا خیال ہے، اگر کسی کا ایمان ابھی کچا ہو تو وہ کس کی کشش میں مُبتلا ہوگا؟

رمضان المبارک کے مبارک مہینے میں، دعوتِ اسلامی سے درخواست ہے کہ اپنی جماعت میں سے کسی اعلیٰ تعلیم یافتہ، صاحبِ دلیل مسلمان سے پروگرام کروائیں اور اگر امیر صاحب کو ٹی وی پر آنے کا شوق ہے تو کسی اسلامی ٹاپک پر ایک باقاعدہ سکرپٹ لکھوا لیں جس میں وہ اپنا “خود ساختہ عشق”ڈالنے سے پرہیز کریں۔ امیر دعوتِ اسلامی کا احسان ہوگا اگر وہ اس عشقِ رسول کو عملیت میں بدل دیں مثلاً بیوہ سے شادی سنت ہے؛ عشقِ رسول میں قادری بھائیوں کو دہشت گردی کی جنگ میں شہیدسیکیورٹی اہلکاروں کی بیواؤں سے شادی پر مائل کیا جائے۔ صفائی حضور پاک کو محبوب تھی؛ عشقِ رسول میں مدنی جھاڑوؤں سے کراچی کی صفائی کی جائے۔ عورت متشدد، شرابی اور نشئ خاوند سے بھی طلاق نہیں لے سکتی کہ بعد میں اپنائے گا کون؛ مطلقہ سے شادی بھی سنت رسول ہے اور اس “سنت سے بھری اجتماعی شادیاں” کیوں نہ ہوں؟ کسی غریب کو انصاف نہیں ملتا؛ “مدنی لائرز ایسوسی ایشن” بنائیں جو مُفت وکالت کی پیش کش کرے؛ مدنی ہسپتال، مدنی ٹیکنیکل انسٹیٹیوٹ، مدنی ایڈوانسڈسکِل ورکشاپ۔ لیکن یہ کام مشکل ہیں؛ آسان کام ہیں میلا دیں کروانا، عشقِِ رسول میں رونا، اپنے اپنے گھروں میں چلے جانا اور کافروں کے لیے بدعائیں کرنا۔

کالم نگار: راؤ کامران علی، ایم ڈی
ہر بدھ وار کو کالم لکھا جاتا ہے۔ اگر پسند آئے تو شئیر کریں۔ مزید کالم پڑھنے کے لئے اس پیج Tez Hay Nok e Qalam کو like کریں شُکریہ۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *