یہ 1993 کی سردیوں کا واقعہ ہے۔ ایف ایس سی کی ڈیٹ شیٹ آگئی تھی۔ سارا دن پڑھائی کے بعد شام کو گرم چادر اوڑھے، ٹینشن میں نہر کنارے سیر کر رہا تھا کہ میرے دوست عمر سکھیرا کی گاڑی پاس آکر رُکی اور پوچھا کہ کیا عمران خان کے فنڈ ریزر میں نہیں جارہے ہو؟ میں نے کہا میرے تو ذہن سے ہی نکل گیا تھا لیکن خیر اب دیر ہورہی تھی،تو اسی حالت میں ساتھ بیٹھ گیا۔ بوریوالہ ٹیکسٹائل ملز کے خوبصورت ریسٹ ہاؤس میں فنکشن تھا۔ چند ایک عزیزو اقارب سے ملاقات کرکے پیچھے مڑکے دیکھا تو عمران خان آرہا تھا۔ دراز قد، سفید کرتا شلوار میں ملبوس، سرخ و سفید رنگت، کاندھوں پر جھومتے بال، ٹی وی سے کہیں زیادہ وجیہہ اور شاندار لگ رہا تھا، میں نے دانت نکالتے ہوئے مصافحہ کیا اور اس نے جواباً مسکرانے کی بھی زحمت گوارا نہیں کی۔خوش قسمتی سے اسٹیج کے بائیں طرف اگلی رو میں جگہ مل گئی تھی۔ سٹیج کے سامنے عمران خان, ادب دوست پولیس آفیسر غالب بندیشہ کے ساتھ بیٹھا تھا، تاہم برائے نام بات چیت ۔ جب گا گا کر عطا الّلہ عیسیٰ خیلوی کی رندھی آواز، گلا بیٹھنے کے قریب ہوتی تو ایک صاحب اسٹیج کے پیچھے سے اسٹیل کے گلاس میں “مشروب” لا کر دیتے اور عیسیٰ خیلوی جمپ اسٹارٹ ہوکر دو دو بار”قمیض تیری کالی” پر لگ جاتا۔
یہ ہماری “بلوغت”کے اوائل کا زمانہ تھا؛مونچھوں پر لگ بھگ پانچ پانچ بال دونوں طرف، کہیں کہیں داڑھی کا بال اور اس پر چند عدد پمپلز؛ اپنی شکل ویسے ہی دیکھنے کو دل نہیں کرتا تھا اس پر عمران خان جیسا بندہ دیکھنے کے بعد تو بالکل ہی نہیں؛ دل میں خیال آیا کہ یہ کرکٹر نہ بھی ہوتا تو بھی لڑکیاں اس پر مرتیں لیکن کل کا اخبار پڑھ کر ہنسی چھوٹ گئی؛ ایک طرف عائشہ گلالئی چھ حلقوں سے سامنے آرہی ہے؛ دوجی جانب ریحام خان کی کتاب؛ اور ابھی “پنکی نانی” کا ذکر بھی الیکشن میں دوبارہ چلے گا۔اپنی دل شکن “پیوبرٹی” کے زمانے میں بھی لڑکیوں کے حوالے سے نصیب اتنے بہتر تھے کہ ناں تو کبھی گلالئی جیسی مرد چہرہ اور مرد آواز بے ڈھنگی “چیز” کو دوسری بار مڑ کر دیکھا تھا؛ ناں ہی کبھی “ڈسپیریشن” میں جوان بچوں کی ماں یا نانی تک کی نوبت آئی۔ ایک تو اتنے خوبرو اور زبردست بندے کا کوئی اسٹینڈرڈ ہی نہیں اور سونے پہ سہاگا اب یہ ساری بزرگ خواتین MeToo #کے چکر میں ہیں۔
مرد اور عورت کے ازدواجی رشتے میں دو قسم کے فائدے ہوتے ہیں ایک ہے بنیادی فائدہ جسے “پرائمری گین” کہتے ہیں اور دوسرا ثانوی فائدہ جسے “سیکنڈری گین” کہتے ہیں۔ مثلاً ہر عورت چاہتی ہے اسکا شوہر پڑھا لکھا، شریف، برسر روزگار اور مخلص ہو جو کہ بنیادی فائدہ ہے لیکن اگر اسکے پاس شاندار گھر، گاڑی ہو اور وہ خود اکیلی اولاد ہو تو یہ ثانوی فائدے ہیں۔ اسی طرح ایک آدمی چاہتا ہے، بیوی خوبصورت، وفا شعار اور سلیقہ مند ہو لیکن اگر اسکا بوتیک ، پارلر یا “پینو دی ہٹی” ہو تو یہ ثانوی فائدے ہیں کہ چلو گھریلو آمدنی بڑھ جائے گی۔ اب یہ ثانوی فائدے بُری بات یا لالچ نہیں اگر ان سے ازدواجی زندگی خوشگوار ہو جائے لیکن اگر بیوی کا ارادہ میاں کی کوٹھی نام کروا کر سب کو نکالنے کا ہو یا میاں کا ارادہ بوتیک پر قبضہ کرکے وہاں گرل فرینڈ بٹھانے کا ہو تو یہ گھٹیا پن اور لالچ ہے۔ ایسے معاملات میں بنیادی فائدہ اور ثانوی فائدہ دونوں ہی مٹی میں مل جاتے ہیں؛ کوئی بھی دھوکے باز پر یقین نہیں کرتا۔
جمائما خان ایک ارب پتی کی بیٹی تھی؛ لیڈی ڈیانا سے لیکر برطانیہ اور امریکہ کی سیلیبرٹیز تک کے ساتھ اٹھنے بیٹھنے والی؛ اسے عمران خان سے محبت ہوگئی اور یہ بنیادی فائدہ (پرائمری گین) تھا۔ ثانوی فائدہ شہرت ہوسکتا ہے لیکن سوائے کرکٹ کے شائقین کے، بیرونی دنیا میں عمران خان کو کون جانتا تھا اور میانوالی میں مشہور ہوکر جمائما نے کیا لینا تھا ؟ اس سے زیادہ شہرت تو اداکار ہگ گرانٹ سے دوستی کرکے ملی تھی۔ چونکہ ثانوی فائدہ تھا نہیں اس لئے “ٹٹ گئی تڑک کرکے” والا سین نہیں ہوا۔ عمران پاکستان چھوڑنے والا نہیں تھا وہ پاکستان رہ نہیں سکتی تھی-
سو اپنا اپنا راستہ خوشی خوشی بدل لیا
وہ اپنی راہ چل پڑی ، میں اپنی راہ چل دیا
لیکن تعلق ستھرا تھا تو ٹوٹنے کے بعد بھی ستھرا رہا؛ وہ اپنے بچوں کے باپ کے سامنے ہر بُرے وقت میں ڈھال بن گئی اور خان نے بھی طلاق کے بعد اسکی اربوں کی جائیداد سے آنا تک نہ لیا۔ یہ ہوتا ہے رشتہ جب تعلق میں اسی سے نوے فیصد سے بھی زیادہ بنیادی فائدہ (پرائمری گین) ہو اور بہت کم ثانوی فائدہ (سیکنڈری گین)ہو-
اسکے بعد آتی ہے “لکی ایرانی سرکس” کی طرح کئی چہروں والی ریحام خان؛؛ پہلی شادی پر مشرقی تہذیب کا شاہکار بنی تصویر؛ پھر طلاق کے بعد چالیس کے پیٹے میں شارٹ اسکرٹ میں ٹین ایجرز جیسے ڈانس کی ناکام کوشش؛ دوسری نیم برہنہ لڑکیوں کے ساتھ بے شرمی سے دانت نکالتے ہوئے بےہودہ نوٹنکیاں اور مصنوعی گفتگو۔ جن حربوں سے وہ خان تک پہنچی اب ان کا تذکرہ عام ہے۔ بارہ سال سے بیوی کے بغیر تنہا آدمی ریحام خان کے سامنے پگھل گیا۔ کسی زمانے میں womanizer رہنے والا یقیناً اب بھی خواتین میں دلچسپی رکھتا ہے لیکن اسکے قریبی دوست بتاتے ہیں کہ اگر باقاعدہ اسلامی طریقے کے بغیر وہ “ضرورتیں” پوری کرنے کو تیار ہوجاتا تو اسلام آباد کے گردو نواح میں چین سے لیکر روس اور مشرقی یورپ تک کے حسن سے لدے عشرت کدے زیادہ آسان تھے لیکن وہ ان سب سے اجتناب کر چکا تھا اور محض شادی کا خواہشمند تھا۔ سب کو صاف پتا چل رہا تھا کہ ریحام خان شہرت اور طاقت کے ثانوی فائدوں کے لئے پھنسا رہی ہے لیکن عمران خان نہ سمجھ سکا۔ لیکن جب بلی تھیلے سے باہر آئی تو فوراٌ چھٹکارا پا لیا۔ اب اگر یہ محض بنیادی فائدہ ہوتا یا محبت ہوتی تو حق مہر لے کر چُپ ہوجاتی لیکن اب اسے مرے ہاتھی کے دانت سے “ثانوی فائدے” کا خراج وصول کرنا تھا۔ پہلے ٹی وی پروگراموں میں وہی مصنوعی پن سے لبریز انٹرویوز، دشمنوں کی ہتھیار اور اب آگئی کتاب۔
اسکے بعد ذکر ہے “پنکی نانی” کا جو جاگتی آنکھوں کے “خوابوں” کا ناٹک کرکے ٹیسٹوسٹیرون کی کمی کے شکار شوہر سے چھٹکارا پا کر اپنے جوانی کے “کرش” کرکٹر کی ہوگئی؛ حرکت تو یہ بھی گھٹیا ہی تھی لیکن وہ بہرحال نقصان دہ نہیں ہوگی کیونکہ اسکا زیادہ فوکس بنیادی فائدہ یعنی پرانی محبت کو پانا تھا، ہوسکتا ہے ثانوی طور پر “فرسٹ لیڈی” بننا بھی ہو لیکن یہ تو وقت ہی بتائے گا۔
انتظار ہے اب طلسمی کتاب کا۔ کیا پڑھ لیں گے کتاب میں؟ کیا عمران کوکین کا “انیما” لیتا تھا؟ یا ریحام خان کے میک اپ کے پچھلے چھپی سلوٹوں کی بہار دیکھ کر اسکی بجائے “شیرو” پر عاشق ہوگیا تھا؟ نسوار کو بلیک کرتا تھا یا پھر پنجاب سے بچے اغوا کروا کر پشاور بیچتا تھا؟ ہم بھی پڑھیں گے “تہجد گزار” چالباز کی انتہا اور پھر اس کے بعد کیا ہوگا؟؟؟؟ شاید کوئی پیغمبر ہی آسمان سے اترے اور ایسی کوئی کتاب سنائے جو عمران خان کو ڈیزل منافق، زرداری ڈاکو اور بجلی کو جیب میں ڈال کر لے جانے والے “شریف “چوروں سے بھی نیچے گرا دے، تو شاید بات بنے۔ ورنہ یہ کتاب مرے اور سڑے ہوئے رشتے کی قبر پر مٹی کا آخری ڈھیلا ثابت ہوگی اور اسکا ذکر تاریخ میں ایسے ہی ہوگا جیسے ٹرمپ کہتا ہے کہ عوام کو غصہ کلنٹن کے معاشقے پر نہیں تھا بلکہ اس پر تھا کہ “کلنٹن کا انتخاب انتہائی گھٹیا تھا”!!!
کالم نگار: راؤ کامران علی، ایم ڈی
ہر بدھ وار کو کالم لکھا جاتا ہے۔ اگر پسند آئے تو شئیر کریں۔ مزید کالم پڑھنے کے لئے اس پیج Tez Hay Nok e Qalam کو like کریں شُکریہ۔