یہ ایک بس کا اندرونی منظر ہے۔ ایک آدمی جس کے ہاتھ میں ایک رائفل ہے وہ ایک لڑکی کو گندی گالیاں دیتا ہے اور پھر اسکے منہ پر تھپڑ مار کر اپنے آپ کو انسان سے حیوان کے درجے پر اتار لیتا ہے جبکہ دیکھنے والے مرد حضرات خود کو نامردی کے درجے پر؛ لڑکی اس زیادتی پر احتجاج کرتی ہے، اس کی آواز، بولنے کے اندازاور بعد میں دیکھی گئی تصویر سے پتا چلتا ہے کہ وہ بیچاری کسی غریب گھرانے کی بچی تھی اور زندگی سے اپنا خراج وصول کرنے، اپنی حصے کی روٹی کے ٹکڑے اکھٹے کرنے، خود اپنا جہیز تیار کرنے اور بیوہ ماں کا سہارا بننے گھر سے باہر نکلی اور کسی جانور کی ذلیل خواہش پوری نہ کرنے پر جان سے گئی۔ دوسری فوٹیج میں دیکھا جا سکتا ہے کہ کیسے بےدردی سے اس بچی کو سیڑھیوں پر مار دیا گیا۔ یہ ہے صلہ محنت کی دوڑ دھوپ کا۔ کتنا آسان تھا اگر یہ بچی بھی “صبا” کی طرح گھر بیٹھ کر بیلنس مانگتی پھرتی یا فیس بُک کی کسی “کیوٹ اینجل” کی طرح چند روپوں میں اپنی اخلاق باختہ تصویریں بھیجتی یا لائیو شو کرتی رہتی اور زیادہ کماتی لیکن نہیں، اس نے محنت اور عزت کی کمائی کو چُنا اور یہ ہے صلہ ہمارے ملک میں رزقِ حلال کمانے والی بچیوں کی محنت کا۔
دوسرا منظر ہے ایک جواں سال ٹریفک وارڈن کا۔ گرمی سردی، سڑک پر کھڑا، موسموں کی سختیوں سے لڑتا، نشے میں چُور ڈرائیوروں کے سامنے اپنی جان ہتھیلی پر رکھتا، من چلوں سے بدتمیزی اور سگِ سیاستدانوں سے بے عزتی کرواتا، دو ننھے بچوں کا باپ، لائسنس مانگنے پر ایک مکروہ شکل کے انسان کی گولی کا نشانہ بن گیا اور ساتھ ایک راہگیر بھی۔ جس سڑک پر وہ غریب ٹریفک وارڈن اپنے بچوں کیلئے رزق کمانے اور فرض نبھانے کے لئے کھڑا تھا وہاں اسکا خون سڑک کے نشیبی حصے میں جمع تھا، رزقِ خاک تھا۔ خون خشک ہونے سے پہلے آخری تحریر ثبت کرگیا تھا جس میں ایک بے بسی تھی ایک کرب تھا اور ایک بے یقینی تھی کہ انصاف ہوگا یا نہیں؛ شاید نہیں!
یہ دونوں قتل عدلیہ نے کئے ہیں وکیلوں نے کئے ہیں ججوں نے کئے ہیں۔ کیس لگے گا، تاریخ پڑے گی، جو بچی خود اپنے نصیب کی روٹی کمانے گھر سے نکلی، اسکے گھر ہوگا ہی کیا کیس لڑنے کو؟ بوڑھی بیوہ ماں چند دن عدالتوں میں ذلیل ہوگی؛ “تاریخ پر تاریخ” اور کچھ مہینوں بعد اسکے پاس چنگ چی کا کرایہ بھی نہیں ہوگا۔ وکیل صفائی فوٹیج میں، اندھیرے میں قاتل کا چہرہ نظر نہ آنے کا ناٹک کرے گا، بس کی کوئی سواری گواہی دینے نہیں آئے گی، بیٹی کی ماں دوسرے بچوں کو بچانے کیلئے کیس واپس لیکر “الّلہ پر چھوڑ دے گی” اور قاتل معافی مانگ کر، چند دعائیں پڑھ کر، “روحانی سکون” کی زندگی بسر کریگا۔
یہی حال ٹریفک وارڈن کی بیوہ کا ہوگا، ایک آدھ سال میں وہ بھی انصاف سے ناامید ہوکر ٹوٹ جائیگی اور کام سے چھٹیاں لیکر کیس کی پیروی کرتا دیور یا جیٹھ بھی اپنے بچے پالے گا یا عدالتوں میں جوتیاں رگڑے گا؛ بیس لاکھ کی گاڑی کا مالک کم از کم پچاس لاکھ تو قصاص میں دے ہی دیگا؛ ایک سال میں مالی مشکلات کا سامنا کرتی بیوہ کو رام کرنے کیلئے کیس کی پیروی کرتے رشتہ دار جن کی رالیں پچاس لاکھ پر ٹپک رہی ہوں گی، مشہورِ زمانہ قومی ڈائیلاگ دوہرائیں گے کہ”کسی کو پھائے لگانے سے مرے واپس نہیں آتے” اور پھر یکدم انکا ایمان جاگے گا کہ “معاف کرنا الّلہ کو پسند ہے” اور دو ننھے بچوں کے باپ، مملکتِ خداداد کی سڑکوں پر مسافروں کی حفاظت کے ضامن کا خون، مٹی کے بھاؤ بک جائیگا۔
کیا نصیب ہے ہمارا؛ سیاستدان تو سیاستدان، صحافی، ڈاکٹر، وکیل، “خلائی مخلوق”؛ کون ہے جو اپنا فرض بطریقِ احسن نبھائے؟ وکلا اپنے پیٹی بند بھائی کے بیٹے کو جو کسی لڑکی پر خنجر سے بائیس وار کرتا ہے، کی حفاظت کے لئے تو قرارداد پیش کرتے ہیں لیکن دیت اور قصاص کے قانون کے خلاف نہیں۔ مزے کی بات ہے کہ جس دیت اور قصاص کے قانون کو جنرل ضیا جیسا مذہبی انسان بھی لٹکاتا رہا، ایک نگران وزیراعظم غلام مصطفےٰ جتوئی نافذ کر گیا اور پورا ملک ڈکار کر “الحمد لّلہ” پڑھنے والے نواز شریف نے اسکی توثیق کی۔ قصاص کے متعلق فقہاے کرام کہتے ہیں کہ اس میں حق اللہ بھی ہے اور حق العبد بھی لیکن حق العبد اس میں غالب ہے۔ آسان الفاظ میں اس کا مفہوم یہ ہے کہ متعلقہ فرد کے پاس مجرم کی معافی کا اختیار ہے لیکن وہ معاف نہ کرے تو پھر اس سزا کا نفاذ لازم ہے۔ حدود میں کسی کے پاس معافی کا اختیار نہیں ہوتا ، اس لیے انھیں حقوق اللہ کہا جاتا ہے۔ گویا کہ اگر ایک مرد اور عورت راضی خوشی جنسی تعلق قائم کرتے پکڑے جائیں تو اسکا کوئی قصاص نہیں اور موت کے سوا کوئی آپشن نہیں لیکن اگر وہی زانی آدمی کسی کی بیوی کو ریپ اور قتل کرکے قصاص میں اپنی چھوٹی بہن (بغیر اسکی مرضی کے) دے دے تو خون معاف؟؟؟؟ آج کے دور میں ایسا قانون حقوق العباد کی نفی کے لئے استعمال ہورہا ہے۔
پوری دنیا میں الّلہ ایسے لوگ پیدا کرتا ہے جو نظام کو بہتر کرتے ہیں جبکہ مملکتِ خداداد میں رنگ باز پیدا ہوتے ہیں جو نظام کو ٹھیک کرنے کی بجائے خود “امیتابھ بچن” بن جاتے ہیں؛ پہلے افتخار چوہدری نے پوری قوم کو “مارچ تھیٹر” پر لگا دیا۔ اب اپنے بیٹے کی کرپشن کی “حرام زد گی” کو بھول کر کسی کی بیٹی کی “حلال زدگی” پر فکر مند ہے اور پھر آتے ہیں بابا رحمتا، ایکشن سے بھرپور فلم لیکن کوئی بھی کام دیرپا نہیں، کوئی قانون سازی نہیں۔ Justice delayed is Justice denied ایک مشہور ضرب المثل ہے لیکن پاکستان میں تو یہ ایک باقاعدہ قانونی حربہ ہے کہ انصاف میں تاخیر اتنی زیادہ کرو کہ تھک ہار کر مدعی ہی چُپ ہو جائے۔ آپ ہی بتائیں کہ کیا وجہ ہے کہ بس ہوسٹس اور ٹریفک وارڈن کے قاتلوں کو ایک مہینے کے اندر پھانسی نہ دی جائے؟ ایک بس کمپنی کے ملازم نے اسی بس کمپنی کی ملازمہ کو مارا؛ کیوں نہ اس کمپنی پر قانونی چارہ جوئی کرکے بچی کی بیوہ ماں اور بہنوں کو کم از کم دس کروڑ روپیہ دلوایا جائے تاکہ آئندہ کمپنیاں بھی بچیوں کی حفاظت پر توجہ دیں؟ کسی بھی ترقی یافتہ ملک میں انصاف ایسا ہی ہوتا ہے، متعلقہ کمپنی پر کیس ہوتا ہے اور ہرجانہ دینا پڑتا ہے۔ جب کافروں کا انصاف مسلمانوں سے بہتر ہوجائے تو علما بالخصوص تبلیغی جماعت سے گزارش ہے ذرا بتا دیں کہ کیا فرمائیں گے کافروں سے کہ کس لئے اسلام میں داخل ہوں؟؟؟؟؟ حضرت علی رضی الّلہ تعالیٰ نے چودہ سو سال پہلے فرمایا تھا کہ نظام کفر پر قائم رہ سکتا ہے، ناانصافی پر نہیں!!!! گردن گھمائیں اور اس قول کی سچائی کو دیکھ لیں، انصاف کے داعی کافروں کے ملک قائم ہیں اور انصاف نہ کر پانے والے تباہ ہو رہے ہیں اور فوری انصاف ہی اس تباہی کو روک سکتا ہے۔ خدا رمضان کی طاق راتوں میں ملے یا نہ ملے لیکن مظلوم کے گھر ضرور ملتا ہے؛ جو انصاف دے وہی رب کو پالے۔
کالم نگار: راؤ کامران علی، ایم ڈی
ہر بدھ وار کو کالم لکھا جاتا ہے۔ اگر پسند آئے تو شئیر کریں۔ مزید کالم پڑھنے کے لئے اس پیج Tez Hay Nok e Qalamکو like کریں شُکریہ۔