نشے کی دنیا “چیزنگ دا ڈریگن” کے گرد گھومتی ہے۔ “چیزنگ دا ڈریگن” کے لفظی معنی “ڈریگن کا تعاقب” ہیں اور چونکہ ڈریگن ایک تخیلاتی پرندہ ہے جو منہ سے آگ اگلتا ہے اس لئے اسے “تخیل کا تعاقب”بھی کہہ سکتے ہیں۔ جب نشہ کرنے والا اپنے نشے کے لحاظ سے “کنوارے” دل و دماغ کے ساتھ پہلی مرتبہ نشہ کرتا ہے تو جس سرور اور مستی کی کیفیت سے سرشار ہوتا ہے، باقی کی زندگی اسی سرور اور سرشاری کو پانے کے لئے مزید اور مختلف انواع و اقسام کا نشہ کرتا ہے۔ اسی سرور کو پانے کی تگ و دو کے اظہار کے لئے “چیزنگ دا ڈریگن” کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے؛ یعنی لاحاصل کے حصول کی تگ و دو! اس اصطلاح کو اکثر نشے کی ٹالرنس (tolerance) یعنی وقت کے ساتھ ساتھ زیادہ مقدار میں نشے کے ساتھ کنفیوز کیا جاتا ہے۔ “چیزنگ دا ڈریگن” ایک نشے کے مریض (جسے ہم حقارت سے نشئی کہتے ہیں) کو اکساتا ہے کہ “چل کوئی اور نشہ ٹرائی کر کہ ہوسکتا ہے کہ تیری محبوبہ (ڈریگن)اس نئے نشے سے مل جائے” اور یہ الت اتنی دور تک لے جاتی ہے کہ جب “سنجوُ” کو کیلیفورنیا میں نشے کے علاج کا ڈاکٹر ایک لمبی لسٹ دیتا ہے کہ اس نے کون کون سا نشہ ٹرائی کیا ہے تو وہ ہر ایک پر ٹک مارک لگا دیتا ہے۔ گلی کوچوں میں نشے کے مریض ہیروئن کو سونگھنے کے ایک عمل کو بھی “چیزنگ دا ڈریگن” کہتے ہیں۔
جنرل مشرف رنگین مزاج جرنیل (اسکی اپنی کتاب کے مطابق) کی طرح نوکری کرتا ہے اور پھر منتخب حکومت کا تختہ الٹ کر نو سال مطلق العنان حکمران بن کر راج کرتا ہے۔ سن 2006 میں راقم کو ایچ ڈی ایف کے نیویارک میں مشرف کو دئیے گئے عشائیے میں شرکت کرنے کا موقع ملا تھا۔ جرنیل کی عقل کا یہ عالم تھا کہ “عالم جذب میں”فرمایا “تم لوگ امریکہ میں بڑی بلڈنگیں دیکھتے ہو تو میں پاکستان اونچی بلڈنگیں بنا رہا ہوں تاکہ تم لوگ احساسِ کمتری کا شکار نہ ہو” اور پھر مزید پھول جھاڑے، “شوکت عزیز بینکوں میں ٹکے ٹکے کی نوکری کرتا ضائع ہورہا تھا، اس میں قابلیت دیکھ کر میں نے وزیراعظم “لگا دیا” (گویا کہ کوئی چپڑاسی ہو)۔ مشرف کے ڈائس کے سامنے ہماری دس بندوں کی وہ ٹیبل ایک لاکھ ڈالر کی تھی اور جرنیل کی دو منٹ کی جاہلانہ تقریر کے بعد محض چار بندے ٹیبل پر رہ گئے تھے اور باقیوں نے باہر لابی میں گپ شپ کرنے کو ترجیح دی۔ سن 2008 میں جرنیل کو عزت سے ملک سے باہر جانے دیا لیکن “چیزنگ دا ڈریگن” کا کیڑا تنگ کرنے لگا؛ اسے وہی پاور، وہی توجہ، وہی جان لیوا تقریریں ستانے لگیں۔ سرکار، ذلیل ہونے کے لئے واپس پاکستان آئے اور جب “فیس بک کے فالورز” حقیقی زندگی میں نظر نہ آئے تو کمر کے درد کا بہانہ بنا کر باہر تشریف لے گئے۔ آجکل امریکہ میں “کنگ میکرز” سے رابطے کے ساتھ ساتھ عمران خان کی خوشامد بھی کررہے ہیں کہ کوئی عہدہ دے دیا جائے۔ عام جرنیل ریٹائرمنٹ کے بعد بڑی عزت اور وقار سے گالف کھیلتے، دنیا دیکھتے زندگی گزارتے ہیں لیکن جیسے ایک نشئی ہر وقت نشے کے لئے بارگیننگ کرتا ہے، کمانڈو جرنیل، اختیارات کا “چیزنگ دا ڈریگن” کرتے ہوئے (مزید) بے عزت ہو رہے ہیں۔
یہ لت صرف کمانڈو کو نہیں لگی؛ اربوں کی جائداد کی مالک بینظیر بھٹو بھی “چیزنگ دا ڈریگن” کے لئے ملک واپس آئی اور دہشتگردوں کا نشانہ بن گئی۔ ظاہر ہے پیپلزپارٹی تو “ملک کی خدمت” کے لئے ہی واپسی کہے گی لیکن پچھلے دو ادوار میں بی بی نے شوہر نامدار کے ساتھ جو ملک کی “خدمت” کی تھی اسکے بعد اس دعوے میں سچائی کا یقین مشکل تھا۔ یہی حال دو بھائیوں کا ہے جنھیں جلا وطنی میں ہر عید ہر ملک کی یاد ستاتی تھی لیکن پھر کبھی عید ملک میں نہیں کی۔ ان سب میں نہ تو ملک کی خدمت کا جذبہ تھا اور نہ ہی مگر مچھ کے آنسو حب الوطنی کے تھے، یہ بس “چیزنگ دا ڈریگن” تھا؛ طاقت اور اختیارات کے نشے کا پیچھے کرتے ایک خالقِ حقیقی کو جاملی اور دوسرا اس مرتبہ“باہر” کی بجائے “اندر” ہوگیا۔
“چیزنگ دا ڈریگن” شاید انسانی جبلت کے ساتھ پیوستہ ہے لیکن ہم جیسے لوگ جو ہر سانس کے ساتھ مسلمانوں کے “تابناک ماضی” کے مدح سرا رہتے ہیں، اس الت کا کچھ زیادہ ہی شکار ہیں۔ خواہ پاکستانی، پاکستان میں ہوں یا بیرونِ ملک، ہر آرگنائزیشن میں “چیزنگ دا ڈریگن” کے شکار، پوری تنظیم کا ستیاناس کرنے پر تُلے ہوتے ہیں۔ امریکہ میں تو یہ “لت” ڈاکٹروں کی ایک بڑی تنظیم کو قانونی چارہ جوئی تک لے گئی ہے۔ اس تنظیم میں، تین چار سال تک درجہ بدرجہ انتخابات کی خواری کے بعد، طرح طرح کے بندوں سے نیٹ ورکنگ کے بعد، ایسے محتاط رہنے کے بعد کہ کوئی لفظ بھی منہ سے حق اور سچ کا نہ نکل جائے، ایک منتخب خوش نصیب ایک سال کے لئے صدر بنتا ہے؛ بلےّ بّلے ہوتی ہے؛ اسکے بارے میں تعریفی کلمات بولے جاتے ہیں؛ بڑے بڑے لوگوں سے (جناب صدر کے لحاظ سے) اٹھنا بیٹھنا؛ “سندھی چوہان” سے لیکر “راحت فتح خان” تک سے محفلیں اور جب اس صدارت کی “چس” آنا شروع ہوتی ہے تو سال ختم ہوجاتا ہے! اب وہی “اہمیت” حاصل کرنے کے لیے “چیزنگ دا ڈریگن” کے ذریعے کبھی بورڈز آف ڈائریکٹرز کا قبضہ تو کبھی کسی “بہو بلی” یا سائیڈ کِک کو صدر بنانے کی تگ و دو۔ اس پورے عمل میں حقیقی کارکن ناامید اور مایوس ہوکر تنظیم کو چھوڑ جاتے ہیں؛
دنیا میں ہر جگہ “اقتدار کے نشے” کے شکار یہ نہیں جانتے کہ ہر “چیزنگ دا ڈریگن” کا انجام ایک سا ہوتا ہے۔ لوگ دعووں کے پیچھے چھپی اصلیت کو جان لیتے ہیں اور اس نشے کا بھی وہی انجام ہوتا ہے جو اس نشئی کا ہوتا ہے جو نشہ ترک کرنے سے انکاری ہوتا ہے۔ ان میں سے کچھ جلدی اوور ڈوز ہوکر انجام کو پہنچ جاتے ہیں اور کچھ سسک سسک کر!
کالم نگار: راؤ کامران علی، ایم ڈی
ہر بدھ وار کو کالم لکھا جاتا ہے۔ اگر پسند آئے تو شئیر کریں۔ مزید کالم پڑھنے کے لئے اس پیج Tez Hay Nok e Qalam کو like کریں شُکریہ-