دنیا کے تمام دانشور اور اہلِ علم اس بات پر متفق ہیں کہ کامیابی کوئی ایک عنصر یا جزو نہیں بلکہ ایک مرکب ہے۔ اب اس مرکب کی وضاحت یا تعریف مختلف حلقہ فکر نے مختلف طریقے سے کی ہے؛ روحانی کامیابی سے لیکر دنیاوی کامیابی اور پھر آخرت کی کامیابی۔ دنیاوی کامیابی کو عموماً مختلف مثلثوں(success triangle) کی صورت میں بیان کیا جاتا ہے. موجودہ وقت میں سب سے پاپولر مثلث جن تین عناصر پر مبنی ہے ان میں رویہ (attitude), مہارت (skills), اور علم (knowledge) شامل ہیں۔ راقم کی عاجزانہ رائے اور ذاتی تجربے کے مطابق کامیابی کی مثلث جن عوامل پر مشتمل ہے ان میں قسمت، محنت اور ذہانت شامل ہیں۔
اب اگر ہم اس مثلث کو مزید کھولیں تو قسمت کو 40 فیصد، جبکہ محنت اور ذہانت کو 30, 30 نمبر دے سکتے ہیں۔ ہمارے بڑے بزرگ قسمت کو بہت اہمیت دیتے تھے۔ ستر اور اسّی کی دہائی میں جب دنیا کے مختلف ملکوں میں ٹیلی فون اور ہوائی جہاز کے ذریعے رابطہ بڑھا تو یہ مانا جانے لگا کہ “ذہانت” کے باعث لوگ دوسرے ملکوں میں جاسکتے ہیں یا ترقی کرسکتے ہیں۔ نوے کی دہائی تک آگاہی بڑھی کہ عام آدمی بھی “محنت” سے آگے بڑھ سکتے ہیں اور ایک بڑی مڈل کلاس سی ایس ایس اور سی اے کی طرف متوجہ ہوئی۔ نئی صدی کے آغاز میں محنت (hard work) پر ہوشیارانہ محنت (smart work) کو فوقیت دی گئی۔ آج کے دور میں جب دنیا سوشل میڈیا کے ذریعے زمان و مکاں کی قیود سے باہر نکل آئی ہے تو اتنے زیادہ نالج، تال میل اور آگاہی سے نئے نئے نظریات (paradigm shifts) تبدیل ہو رہے ہیں اور ان میں ایک ہے “قسمت” کا انسان کی زندگی بالخصوص کامیابی میں کردار۔ آپ بل گیٹس سے لیکر وارن بفٹ تک کے انٹرویوز سنیں تو وہ “قسمت” کو بہت اہم قرار دیتے ہیں؛ کھیل ہی کھیل میں “فیس بک” بن جانے میں قسمت کا کتنا کردار ہے۔ کارپوریٹ ورلڈ میں قسمت کے لئے لفظ serendipity استعمال ہوتا ہے اور یہ کیا ہوتا ہے؟ آپ یوں سمجھ لیں کہ پنجابی کے مطابق کسی کا “دا لگ جانا” کو serendipity کہتے ہیں۔ سائنسی طور پر یہ بڑی بڑی کمپنیاں کامیابی میں، قسمت (serendipity) کے کردار کا جائزہ سائنسی طور پر لے رہی ہیں اور اس سلسلے میں اوحد یعقوب اور ڈاکٹر ڈین سیمنٹن کی ریسرچ قابلِ ذکر ہے۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایک عام آدمی کامیابی حاصل کرنے کے لئے ان عوامل پر کیسے کام کرسکتا ہے؟ تو اس میں سب سے بڑھ کر ہے “محنت”اور خصوصاً ہوشیارانہ محنت؛ سوچ سمجھ کر صحیح راستے پر محنت؛ ایسے ہی جیسے کچھوا مسلسل محنت سے ناممکن دوڑ جیت جاتا ہے۔ محنت کی خوبی، ذہانت اور قسمت کے برعکس یہ ہے کہ اس پر آپکا کنٹرول ہے، جتنی چاہیں کر لیں۔ اس معاملے میں مشکلات انکے لئے ہے جنھیں کوئی ایسی معذوری ہو کہ کوشش کے باوجود محنت نہ کرسکیں۔
اسکے بعد آتی ہے “ذہانت”؛ اگر آپ یہ کالم پڑھ رہے ہیں تو آپکی اور میری ذہانت میں کوئی فرق نہیں۔ یہ ایک نارمل آئی کیو ہے۔ اب اس آئی کیو میں مزید محنت ڈال کر، مطالعہ کرکے، مشاہدہ کرکے، آپ ذہانت اور آئی کیو میں کچھ اضافہ کرسکتے ہیں۔ اس معاملے میں مشکلات انکے لئے ہیں جنھیں کوئی ذہنی بیماری مثلاً ڈاؤن سنڈروم ہو۔
اسکے بعد آتی ہے “قسمت”!!!! یہ بڑی حد تک انسان کے ہاتھ سے باہر ہے۔ مثلاً دو لوگ ریڑھی لگاتے ہیں برابر محنت کرتے ہیں ایک سے ذہین ہیں لیکن ایکدم ان میں سے ایک دوسرے کو کہتا ہے کہ “اچھا جی سلام علیکم، بھائی نے سعودیہ سے ویزہ بھیج دیا ہے”۔ اب یہاں پیچھے رہ جانے والا ریڑھی والا قسمت کو کوس سکتا ہے لیکن محنت اور ذہانت کو ترک نہیں کرسکتا کیونکہ ہوسکتا ہے کہ سعودیہ جانے والا وہاں قسمت پر ہی نازاں رہے اور ترقی نہ کرسکے جبکہ پیچھے رہ جانے والا ریڑھی والا ذہانت اور محنت سے بڑا تاجر بن جائے۔ گویا قسمت جو بھی رنگ لائے، محنت اور ذہانت کا استعمال کم نہ ہو۔
اب سوال یہ ہے کہ کیا قسمت ایک مستقل (constant) یا غیر تغیر پذیر عنصر ہے تو اسکا جواب ہے، نہیں! قسمت کو اچھا بنایا جاسکتا ہے اور اسکا طریقہ ہے “قسمت بنانے والے سے دوستی”؛ اور اسکا طریقہ ہے جن کی قسمت میں ایسے وسائل نہیں آئے کہ وہ محنت اور ذہانت کے ہوتے ہوئے بھی کچھ کرسکیں یا کسی کی اتنی بھی قسمت نہیں کہ نارمل آئی کیو کے حامل ہوں بلکہ ذہنی طور پر کمزور ہوں تو ان سب کا ہاتھ تھامنا، ان کو سہارا دینا اور انکی مدد کرنا؛ میرا ایمان ہے کہ یہ وہ عمل ہے جو انسان کی قسمت کو بہتر سے بہترین بنا دیتا ہے۔ نئے پاکستان میں ان لوگوں کی مدد کرنی ہے، ان کو ساتھ لیکر چلنا ہے جن کی قسمت (فی الوقت) اتنی اچھی نہیں کہ مناسب تعلیم حاصل کر سکیں، علاج کروا سکیں، روزمرہ کے مسائل کا سامنا کرسکیں۔ لیکن یہ ہاتھ اس لئے تھامنا ہے کہ انھیں انکے پیروں پر کھڑا کیا جاسکے، ذہانت کیساتھ محنت پر مائل کیا جاسکے۔ نئے پاکستان میں اقلیتوں کی ایسے ہی قدر ہو جیسے 1947 میں جوگندر ناتھ منڈل کی تھی، سیسل چوہدری کی تھی، جسٹس بھگوان داس کی تھی۔ اقلیتیں قسمت میں اکثریت سے کم خوش نصیب ہوتی ہیں تو انکا ہاتھ تھامنا، انھیں خصوصی اہمیت دینا زندہ قوموں کی نشانی ہے۔ خواہ انڈیا کا مسلمان ہو یا پاکستان کا ہندو یہ ذرا گھبرائے ہوئے ہوتے ہیں تو انکا حوصلہ بڑھانا آپکی قسمت بڑھا سکتا ہے۔ یہی جشنِ آزادی کا صحیح جذبہ ہے؛ یہی فرد واحد کے ساتھ ساتھ ملت کی قسمت کا ستارہ چمکائے گا! جشنِ آزادی مبارک!!!! پاکستان زندہ باد
کالم نگار: راؤ کامران علی، ایم ڈی
ہر بدھ وار کو کالم لکھا جاتا ہے۔ اگر پسند آئے تو شئیر کریں۔ مزید کالم پڑھنے کے لئے اس پیج Tez Hay Nok e Qalam کو like کریں شُکریہ-