کرسٹینا جانسن نیویارک کے اسپتال میں تیسرے سال کی ٹرینی ڈاکٹر تھی، وہ اپنے کال روم میں بیٹھی تھی کہ اچانک “کوڈ بلیو” کا مائک پر اعلان ہوا جس کا مطلب ہے کہ کسی مریض کی جان خطرے میں ہے یعنی دل کا دورہ پڑا ہے یا کچھ اور سیریس مسئلہ ہوا ہے۔ کرسٹینا نے تیزی سے مریض کے کمرے کی طرف دوڑ لگا دی۔ جونئیر ٹرینی ڈاکٹر اور نرسنگ اسٹاف اسکی مدد کے لئے مطلوبہ ادویات اور “ڈی فیبریلیٹر” لیکر موجود تھے۔ کرسٹینا بوکھلا گئی اور “بلیو کوڈ” مناسب طریقے سے نہ سنبھال سکی اور مریض اپنی جان سے چلا گیا۔ یہاں یہ بتانا ضروری ہے کہ تقریباً اسی فیصد مریض “کوڈ بلیو” میں یا تو جانبر نہیں ہو پاتے ہیں یا کومے میں چلے جاتے ہیں لیکن مسئلہ جان بچانے سے زیادہ اپنے فرائض کو مطلوبہ صلاحیت کے ساتھ انجام دینا ہوتا ہے۔ اتنی دیر میں ایسوسی ایٹ پروفیسر جیکب ہکمین موقعہ پر پہنچ گئے۔ انھوں نے کرسٹینا کو اپنے آفس میں طلب کیا اور اسے کہا کہ اپنے “اے سی ایل ایس” (ایڈوانسڈ کارڈیک لائف سپورٹ) کا سرٹیفیکیٹ ساتھ لیتی آئے۔ یہ سرٹیفیکیٹ ایک میڈیکل سائنس کی ٹیکنالوجی سے تیار کردہ پلاسٹک کے مجسمے پر انسانی جان بچانے کی کامیاب پریکٹس کرنے کے بعد ملتا ہے اور ہر ٹرینی ڈاکٹر نے ایک یا دو سال کے بعد اس کورس کو پاس کرنا ہوتا ہے۔ ڈاکٹر ہکمین نے دیکھا کہ اسکے سرٹیفیکیٹ تو اپ ٹو ڈیٹ ہیں یعنی وہ ہر سال انسانی جان بچانے کی پریکٹس باقاعدگی سے کرتی آئی ہے۔ ڈاکٹر ہکمین نے کرسٹینا کی طرف دیکھتے ہوئے انتہائی تاسف بھرے لہجے میں کہا کہ بتاؤ ہر سال اس کورس کا کیا فائدہ اگر تم اسے عملی زندگی میں استعمال ہی نہ کرسکو اور یہاں سے رمضان المبارک کا مقصد اور اسکا مسلمان کی عملی زندگی میں استعمال کا سوال پیدا ہوتا ہے۔
ٹرانسپیرنسی انٹرنیشل کے اعدادو شمار کے مطابق، 1995 میں پاکستان کرپشن میں 39ویں نمبر پر تھا جبکہ 2018 میں 117 ویں نمبر پر آگیا, یاد رہے کہ ٹوٹل ممالک 175 تھے۔ جبکہ اسی دوران گزشتہ تیئس سالوں میں پاکستان سے جانے والے حجاج کرام کی تعداد میں اضافہ ہوکر سالانہ ایک لاکھ پچاسی ہزار حجاج اس سال حج پر جائیں گے۔ سالانہ زکوٰة ڈھائی سو ارب روپے سے تجاوز کر گئی ہے اور یہی حال قربانی کا ہے; ان سب جسمانی مشقتوں اور مالی قربانیوں کے باوجود ہم کرپشن میں اتنا کیوں ڈوبے ہوئے ہیں؟ اتنی “پریکٹس” کے باوجود عملی زندگی میں اتنی ناکامی!!! کہیں نہ کہیں تو کچھ ایسا ہے جو سمجھ اور عقل سے باہر ہے، کوئی ایسی گتھی جو سلجھنے کو ہی نہیں آرہی۔
جب بھی انسان کوئی جرم مثلاً کرپشن یا فراڈ کرتا ہے تو اس پر دو طرح کا دباؤ ہوتا ہے، ایک قانونی اور دوسرا اخلاقی یا مذہبی؛ جن ملکوں میں قانون کی بالادستی ہوتی ہے وہاں اخلاقی یا مذہبی دباؤ کی کوئی اہمیت نہیں؛ مثلاً پاکستان میں ایک مذہبی انسان کسی بچے کے ساتھ دست درازی کرے تو “شیطان آگیا تھا” کہہ کر اور محلے والوں سے چند تھپڑ مکے کھا کر ویسے کا ویسا ہوجائے گا اور چند مذہبی وظائف پڑھ کر اپنے تئیں گناہ معاف کر والے گا جبکہ یہی کام بیرون ملک ایک پادری کسی بچے کے ساتھ کرے تو پندرہ بیس سال کی جیل پکی؛ نہ شیطان کو دوش کام آئے گا اور نہ ہی ذاتی ندامت سے کام بنے گا۔
اسکے بعد آتا ہے اخلاقی یا مذہبی دباؤ؛ مثلاً اگر ایک دودھ والا دودھ میں پانی ملاتا ہے تو یہ قانونی جرم بھی ہے اخلاقی بھی اور مذہبی بھی؛ قانونی طور پر نہ کوئی پکڑا جاتا ہے اور پکڑا جائے تو معمولی جرمانہ ہوتا ہے اسلئے قانون کا کوئی ڈر نہیں؛ جہان تک اخلاقی جرم یا ضمیر پر بوجھ کی بات ہے اس میں ضمیر کو سلانے کے لئے آزمودہ نسخے استعمال کئے جاتے ہیں؛؟ مثلاً
“سب چلتا ہے”، “پورا پاکستان یہی کررہا ہے”، “نہ کریں تو بچوں کو کیسے کھلائیں؟” اس ڈیفنس میکنزم کو justification کہتے ہیں گویا ضمیر کو مارنے کے لئے غلط کام کی وجہ بنانا یا بیان کرنا! دوسرا ڈیفنس میکنزم ہے minimization; مثلاً “میں تو صرف دو چار سو کی کرپشن کرتا ہوں جبکہ زرداری اور شریفین اربوں کھا گئے”؛ حالانکہ اس کرپٹ کو موقع ہی دو چار سو کا ملا اسلئے اپنی ذات اور پہنچ کے مطابق وہ بھی مکمل “زرداری” یا “شریف” ہے۔ اس کے بعد سب سے خطرناک ڈیفنس میکنزم آتا ہے جو ملک میں کرپشن اور جرائم کی جڑ ہے اور وہ ہے “الّلہ بڑا غفور الرحیم ہے، سب معاف کردے گا سوائے شرک کے، اور مسلمان تو میں ہوں ہی”!!! یقیناً الّلہ بڑا غفورالرحیم ہے اور معاف کرنے والا ہے، لیکن اپنے حقوق، نہ کہ بندوں گے۔ ایسے موقع پر پوری قوم کو کسی طوائف کا کتے کو پانی پلا کر جنت جانے والا واقعہ رٹا پڑا ہے، حالانکہ وہ حقوق الّلہ کے حوالے سے تھا جبکہ انسانوں کے حقوق کا یہ عالم ہے کہ الّلہ کی راہ میں لڑتے ہوئے شہید کو بھی جنت میں جانے سے پہلے اپنے قرضہ خواہ سے بارگیننگ کرنی پڑے گی ورنہ اپنی ہی جنت کے باہر کھڑا رہے گا۔ اس آخری ڈیفنس میکنزم کو استعمال کرتے ہوئے دھڑادھڑ حج، عمرے، خیرات، ڈونیشن پر زور جاری ہے لیکن یہ تو نعوذ بالّلہ، الّلہ کو حرام کی کمائی میں سے “کمیشن” دینے کے مترادف ہے۔ جس الّلہ نے اتنی بڑی دنیا بنائی وہ کتنا ذہین ہوگا اور اسکے ساتھ ایسے “کمیشن” کا معاملہ کرنا یقیناً اسے پسند نہیں آرہا اسی لئے اتنے حج قربانی اور زکات کے باوجود ملک اور قوم کا یہ حال ہورہا ہے۔ یہ سب عبادات یقیناً حقوق الّلہ میں کمی پر معافی کے لئے بہترین ہیں مثلاً ماضی نمازیں نہ پڑھ سکنے یا روزے نہ رکھ سکنے یا حج نہ کرسکنے پر شرمسار ہوکر معافی مانگنا۔
رمضان المبارک میں مہنگائی بھی حقوق العباد کی پریکٹس کی کمی کے باعث ہے۔ وہ لوگ جنھوں نے کبھی ملک سے باہر قدم نہیں رکھا اکثر کرسمس پر اشیا کے سستا ہونے کا راگ الاپتے ہیں؛ کرسمس پر دودھ چینی اور آٹا سستا نہیں ہوتا، چاکلیٹ، بتیاں اور سردیوں کے مخصوص فینسی کپڑے سستے ہوتے ہیں۔ ہمارے ملک میں روزوں میں مہنگائی بڑھتی ہے کیونکہ اشیائے خورد و نوش کا استعمال بڑھتا ہے۔ رمضان المبارک میں پاکستان میں عمرہ پر پابندی ہونی چاہیے، وہی دولت رمضان کی اصل روح کے مطابق غربا میں تقسیم ہوسکتی ہے۔ جیسے بیمار اور مسافروں کو روزے کی چھوٹ ہے تاکہ آسانی پیدا کی جائے، ویسے ہی دھوپ میں کام کرنے والوں پر روزے نومبر دسمبر میں رکھنے پر علما اجتہاد کرسکتے ہیں؛ ہیٹ اسٹروک یا پانی کی کمی سے مزدور روزے میں مر گیا تو پیچھے پورا خاندان اجڑ جائیگا؛ گویا حقوق الّلہ کی ادائیگی میں حقوق العباد رسک پر لگے ہوں گے۔ حکومتی پالیسی ہو کہ رمضان میں دھوپ میں کام کرنے والے مزدور کو آجر ڈبل معاوضہ دے۔اس مہینے میں کی جانے والی یہ “پریکٹس” اگر اگلے گیارہ مہینے اپنی عملی زندگی میں لاگو نہ کی جائے تو کیا ہم رمضان المبارک کی روح کو سمجھے ؟ سوچنا تو بنتا ہے اور غور و فکر مومن کی میراث ہے!
آپ سب کو دل کی گہرائیوں سے رمضان کے مہینے کی مبارک پیش کرتا ہوں!
کالم نگار: راؤ کامران علی، ایم ڈی
ہر بدھ وار کو کالم لکھا جاتا ہے۔ اگر پسند آئے تو شئیر کریں۔ مزید کالم پڑھنے کے لئے اس پیج Tez Hay Nok e Qalam کو like کریں شُکریہ-