ڈاکٹر بخشی نے میڈیکل کا کوڈ آف کنڈکٹ توڑا؛ مریضہ کے ساتھ تعلقات میں اپنی حدود سے تجاوز کیا اور اسکی توجیح یہ پیش کی کہ مریضہ کا کرپٹ شوہر اسکے ازدواجی حقوق “ٹھیک طریقے سے” پورے نہیں کررہا تھا تو مریضہ کے “عظیم تر مفاد میں” اس نے شوہر کے فرائض بھی سرانجام دے دئیے اور بہت جلد “trickle down effects ” سے مریضہ کے گھر بچوں کی چہل پہل ہوجائے گی!
اسپیشل میڈیکل بورڈ بیٹھا؛ اس نے فیصلہ کیا کہ ناصرف ڈاکٹر بخشی کا لائسنس کینسل کردیا جائے بلکہ اسے جیل میں ڈالا جائے اور یہ غیر اخلاقی، غیر قانونی اور غیر آئینی (میڈیکل کے آئین کے مطابق ) حرکت ڈاکٹر بخشی کے ریکارڈ پر اس طرح رہے گی کہ مرنے کے بعد بھی اسے گوگل پر “گھسیٹا” جاسکے گا۔
میڈیکل کمیونٹی میں یہ خبر آگ کی طرح پھیل گئی؛ میکسکو کی سرحد پر تعینات ڈاکٹروں نے روتی ہوئی ویڈیوز بھیجیں کہ ہم جان ہتھیلی پر رکھ کر فوجی مریضوں کی خدمت کررہے ہیں اس سے ہمارے حوصلے پست ہوئے ہیں۔
کسی نے فیس بک پر تصویر لگائی کہ برفانی طوفان میں بھی انٹروینشنل کارڈیالوجسٹ, ہارٹ اٹیک کے مریض کے دل میں اسٹنٹ ڈالنے جارہا ہے۔
کسی نے کہا کہ گرما گرم کمرے میں بیٹھی میڈیکل بورڈ کی جیوری زیادہ خدمت کررہی ہے یا شدید سردی میں برین ٹراما کے مریض کو موت کے منہ سے واپس کھینچ لینے والا نیوروسرجن؟
کسی نے ڈاکٹر بخشی کی کامیاب پچیس ہزار سرجریوں کی ویڈیو اپ لوڈ کردی اور ویڈیو کے آخر میں آنسوؤں سے بھیگی داڑھی صاف کرتے ہوئے سسکی لے کر پوچھا، “کیا ایسے ڈاکٹر کو گوگل پر گھسیٹنا بنتا ہے”؟
ملک کے دس لاکھ سے زائد ڈاکٹروں، بالخصوص جے ون ویزہ والوں کی “ہارڈ سروس ایریاز”میں مشکل حالات میں مریضوں کا علاج کرتے تصویریں جابجا فیس بک اور انسٹا کی زینت بننے لگیں ۔
دو چار جاہل قسم کے اینکرز ، ڈاکٹروں کے “ادارے” کے ٹٹو، جن کا لب و لہجہ تھڑے پر بیٹھ کر جگتیں مارنے والوں سے بھی گیا گزرا تھا لیکن خود کو عارفین و شاکر ین یا حکیم لقمان جیسی عقل کا حامل سمجھتے تھے؛ جنگ کے دوران زخمی فوجیوں کا علاج کرتے ہوئے چند شہید ڈسپنسروں اور نرسوں کی تصاویر پروجیکٹر پر چلاتے ہوئے مداری کی طرح ناظرین سے سوال پوچھتے رہے کہ کیا اب بھی ڈاکٹر بخشی کا گوگل پر گھسیٹنا بنتا ہے؟
امریکی نظام حکومت کچھ دیر تک تو یہ عقل سے بالاتر ڈرامے بازی دیکھتا رہا اور پھر اس نے قرارداد پاس کی کہ غالباً دماغی توازن کی خرابی اور حرام خوری کے امتزاج کے باعث یہ لوگ سوچنے اور سمجھنے سے قاصر ہوگئے ہیں کہ سزا ایک مجرم ڈاکٹر کو دی جارہی ہے اس سے پوری ڈاکٹر کمیونٹی؛ بارڈر یا برف باری میں اپنے کام انجام دینے والے عام ڈاکٹروں یا غریب ڈسپنسروں اور نرسوں کی قربانیوں کو بیچ میں گھسیٹنے کا کیا تُک؟ قرارداد کے مطابق، علاج کے لئے ان چار اینکرز اور بے تُکی جذباتی ویڈیوز اور تصاویر شئیر کرنے والوں کے دماغ اور “خوراک کی نالی” کو الیکٹرک شاکس دئیے جائیں تاکہ دماغ کی خرابی اور حرام خوری کے اثرات کا مکمل اور دیرپا علاج کیا جاسکے؛ یہ علاج بھی قوم کے “عظیم تر مفاد میں” ہوگا اور ہوا بھی ایسے ہی!
تاریخ گواہ ہے، اس دن سے لیکر آج تک کسی نے، ایک فرد (یا چند افراد) کے جرم کو dilute کرنے کے لئے یا جذباتی بلیک میلنگ کے لئے؛ پورے “ادارے” کو انوالو نہیں کیا گیا؛ فٹ پاتھ سے اٹھا کر اینکرز لگانے پر پابندی عائد کردی گئی ؛ آزادی رائے اور نیت کی خرابی کے فرق کو پوری دنیا پر واضح کردیا گیا۔ اب مجرم کو جذباتی رنگ بازی کے باعث چھوٹ نہیں مل سکتی۔
کالم نگار: راؤ کامران علی، ایم ڈی
ہر بدھ وار کو کالم لکھا جاتا ہے۔ اگر پسند آئے تو شئیر کریں۔ مزید کالم پڑھنے کے لئے اس پیج Tez Hay Nok e Qalamکو like کریں شُکریہ-