بڑا سا چہرہ، بھاری بدن، بڑی مونچھیں اور پیٹ پر جھولتی داڑھی والے شخص کی سرخی مائل آنکھیں مجھ پر مرکوز تھیں!
یہ 1994 کی بات ہے، ایف ایس سی سے فراغت کا زمانہ تھا۔ امتحانوں اور میڈیکل کالج کے درمیان لگ بھگ دس مہینے کا وقفہ تھا۔ ہوش سنبھالنے کے بعد یہ پہلا عرصہ تھا جس میں ہر الٹا سیدھا کام کرنے کی آزادی تھی کیونکہ پڑھائی تھی نہیں۔ کشمیر کے جہاد کا “دھندہ” زوروں پر چل رہا تھا۔ دوستوں کا خیال تھا کشمیر میں جہاد کے ٹریننگ کیمپ میں لوگ دھڑادھڑ کمانڈو ٹریننگ حاصل کررہے ہیں تو اس بارے میں پتا کیا جائےاور اس سلسلے میں، میں کالعدم جہادی تنظیم کے لوکل چیف کے سامنے بیٹھا تھا۔
چیف نے بھری ہوئی آواز میں کشمیر کے جہاد کے فضائل گنوانے شروع کئے۔ چیف کے پاس کشمیر کے نام پر بیچنے کے لئے تین آئٹم تھے
۱- کشمیر میں ریپ ہوئی عورتوں اور کمسن لڑکیوں کی لاشوں کی تصاویر جو کہ بےحد دردناک تھیں اور بچوں اور بوڑھوں پر رونگٹے کھڑے کردینے والے مظالم کا پمفلٹ
۲- قرآنی آیات کا مجموعہ جس میں مسلمانوں کے اوپر ہوتے مظالم کو دیکھ کر چُپ چاپ رہنے والے مسلمانوں سے سخت حساب، عذاب اور سزاؤں کا ذکر تھا۔
۳- کمانڈو ٹریننگ؛ جسے کرنے کے بعد ایک عام نوجوان بھی ٹائیگر شروف کی طرح ہوا میں قلابازیاں کھاتا ہوا دشمن پر فائر کھولے گا اور اسکے پاؤں زمین پر لگنے تک پندرہ بیس لاشیں پھڑک رہی ہوں گی۔
سدا کا جذباتی اور گرم مزاج راقم ان دنوں پانچ وقت کا نمازی اور (کبھی کبھی) تہجد گزار بھی تھا اور کمانڈو بننے کا بھی شوقین تھا تو چیف صاحب اپنے تینوں کے تینوں آئٹم مجھے بیچنے میں کامیاب ہوگئے۔ وہ تو شکر ہے میرے مضبوط والد صاحب کا جنھوں نے ناصرف میرے دماغ کے کیڑے نکال دئیے بلکہ چیف صاحب تک بھی سخت پیغام پہنچ گیا کہ آئیندہ مجھ سے ناں ملا جائے ورنہ انکا “دھندہ” چوپٹ ہوجائے گا۔ اس وقت میرے علم میں آیا کہ چیف صاحب کو ایک “ریکروٹ” ٹریننگ کیمپ میں بھیجنے کا پانچ لاکھ روپیہ ملتا تھا (1994 میں اتنے کا ڈیفنس میں پلاٹ آتا تھا) جبکہ ہائی کمان کو اس سے بھی کہیں زیادہ۔
بہت سے لوگ مجھ جیسے خوش نصیب نہیں تھے اور اس ٹریپ میں آگئے جن میں سے دو قابل ذکر ہیں؛ ایک میرا کلاس فیلو ثنا الّلہ عرف ثانی جو کہ کشمیر میں شہید ہوگیا اور دوسرا مجھ سے دو سال جونئیر عمران! عمران کمانڈو ٹریننگ لیکر واپس آگیا اور enter to learn، go forth to serve کے مصداق، واپس آکر جائیدادوں قبضے کرنے اور بینک لوٹنے شروع کردئیے۔ غلہ منڈی میں ایک زرعی بینک لوٹنے کے دوران ایک گارڈ کو قتل کردیا اور اٹھارہ سالہ “کمانڈو” سب کے سامنے اپنی ہنڈا 125 پر فرار ہوگیا۔ ظاہر ہے ایسے ایکشن محض فلموں میں چلتے ہیں۔ فوراً پکڑا گیا اور سزائے موت ہوئی۔ آخری اطلاعات تک اسکی فیملی سزا کوعمر قید میں تبدیل کرنے کی کوشش کررہی تھی۔ معلوم نہیں زندہ ہے یا جھول گیا!
یہ ہے کشمیر کی منڈی کے نام پر دھندہ اور دھندہ کرنے والے؛ “دشمن کے بچوں کو پڑھانے” والوں کو نظر نہ آیا کہ اپنے بچوں کو کیا پڑھایا جارہا ہے یا پھر پانچ لاکھ سے اوپر شئیر بورویوں میں بھر کر کہیں اور جارہا تھا۔
لیکن کیا یہ سودا ختم ہوگیا ہے یا ابھی تک چل رہا ہے؟ اسکے دوکاندار اور فائدہ اٹھانے والے (beneficiary) کون کون ہیں؟
کیا وجہ ہے کہ جلسے جلوس نکالنے اور چندہ اکھٹا کرنے وہ لوگ آگے آجاتے ہیں جنھوں نے کبھی کشمیر دیکھا تک نہیں اور محض انکے دادا پردادا کشمیر سے تھے؟
کیا وجہ ہے کہ پورا سال وہ نظر نہیں آتے اور جب پانچ اگست جیسے واقعات ہوتے ہیں تو انکی سرخ آنکھیں اور رندھی آواز سننے کو ملتی ہے؟
کم از کم امریکہ کی حد تک آج تک کشمیری کمیونٹی کتنی لابنگ کرچکی ہے؟ کوئی قابل ذکر قرارداد اقوام متحدہ یا امریکی کانگریس میں پیش کی گئی؟
میری رائے میں کشمیر کے نام پر چندہ دینا بند کردیں۔ کوئی احتجاج یا مارچ ہو تو دس روپے کے پوسٹر پر مارکر سے لکھ کر احتجاج میں شامل ہوں۔ امریکہ جیسے ملک میں کوئی چندہ مانگے تو اس لیڈر سے کہیں کہ کسی کانگریس مین یا سینیٹر کو لابنگ کے لئے بلائے اور چیک اس کانگریس مین یا سینیٹر کے نام پر کاٹیں! کشمیر کو مخلص کارکنان کی ضرورت ہے۔ امریکی کانگریس کی رکن پرمیلا جیاپال نے HR 745 کے نام سے کانگریس میں بل جمع کروا رکھا ہے؛ کمیونٹی اور پاک پیک کی کوششوں سے 58 مزید کانگریس مین اس بل کی حمایت کررہے ہیں۔ مزید تعلقات بنانے کی ضرورت ہے۔ بات سڑکوں سے اٹھ کر کانگریس تک آگئی ہے، حوصلہ ٹوٹنا نہیں چاہیے۔ مزید برآں کشمیر ڈے پر چھٹی کی بجائے اس دن کام کی تنخواہ یا منافع کشمیر فنڈ میں ڈالا جائے جس کے پیٹرن اچھی شہرت رکھنے والے پاکستانی ہوں تاکہ گھپلا نہ ہوسکے۔ کشمیر ڈے اور کشمیر کے نام پر دے؛ دونوں میں فرق ہونا چاہئے اور قوم کو یہ فرق جاننا چاہیے!
کالم نگار: راؤ کامران علی، ایم ڈی
ہر بدھ وار کو کالم لکھا جاتا ہے۔ اگر پسند آئے تو شئیر کریں۔ مزید کالم پڑھنے کے لئے اس پیج Tez Hay Nok e Qalam کو like کریں شُکریہ-